پاکستان پریس ریلیز

بریانی کی دیگ بانٹنا "جرم” بن گیا: احمدی شہری کے خلاف مقدمہ درج، انسانی ہمدردی کو انتہاپسندی نے روند ڈالا

احمدی شہری نے غربت اور بھوک کے مارے لوگوں کو کھانا بانٹا، لیکن اس عمل پر مقدمہ بنا دیا گیا

سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی کے ساتھ
پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں محرم الحرام کے دوران شہریوں میں لنگر تقسیم کرنے والے احمدی شہری کے خلاف توہینِ مذہب کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا۔ واقعہ 6 جولائی کی شام سوا چار بجے کا بتایا جاتا ہے، جب مذکورہ شخص نے 10 محرم الحرام کے موقع پر بریانی کے دیگ کے ذریعے لنگر تقسیم کیا۔
شہری کی شکایت پر سٹیلائٹ ٹاؤن تھانے میں درج کی جانے والی ایف آئی آر کے مطابق، احمدی شخص پر الزام ہے کہ اس نے خود کو مسلمان ظاہر کیا اور اسلامی اعمال میں شرکت کی کوشش کی، جو بقول مدعی، پاکستان کے قانون کے تحت قابلِ تعزیر ہے۔
قانونی پس منظر
مقدمہ پاکستان پینل کوڈ کی سیکشن 298-C کے تحت درج کیا گیا، جس کے مطابق احمدی افراد کو خود کو مسلمان کہنے، اسلامی علامات یا شعائر اپنانے کی ممانعت ہے۔ اس قانون کو 1984 کے دوران جنرل ضیاء الحق کے دور میں متعارف کروایا گیا تھا، اور تب سے احمدیہ کمیونٹی کو شدید قانونی اور سماجی دباؤ کا سامنا رہا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق، شکایت کنندہ نے دعویٰ کیا کہ احمدی شخص نے بریانی تقسیم کرتے ہوئے خود کو مسلمان ظاہر کیا، اور جب اس پر اعتراض کیا گیا تو وہ وہاں سے فرار ہو گیا۔ مدعی کا کہنا ہے کہ ایک احمدی شخص اسلامی عبادات یا رسوم ادا کرنے کا قانونی و مذہبی حق نہیں رکھتا۔

مذہبی آزادی یا حدود؟
یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب احمدیہ کمیونٹی کو پہلے ہی کئی حلقوں کی طرف سے مذہبی معاملات میں شرکت سے روکنے کی کوششیں جاری ہیں۔ گزشتہ ماہ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے انسپکٹر جنرل پنجاب کو خط لکھ کر مطالبہ کیا تھا کہ عیدالاضحیٰ کے موقع پر احمدیوں کو اسلامی رسومات کی ادائیگی سے روکا جائے۔
خط میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ احمدی افراد نہ قانونی طور پر اور نہ ہی مذہبی طور پر مسلمانوں کی طرح عبادات یا رسوم ادا کرنے کے اہل ہیں، اور اگر وہ ایسا کریں تو ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
سماجی ردعمل اور خدشات
یہ واقعہ ملک میں مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر احمدیہ برادری کے لیے ایک اور خطرے کی گھنٹی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بارہا اس بات پر زور دیتی آئی ہیں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق اور آزادی کو خطرات لاحق ہیں، اور ایسے قوانین معاشرے میں عدم برداشت کو فروغ دیتے ہیں۔
کئی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر انسانی ہمدردی اور بھوکوں کو کھانا کھلانے جیسے عمل کو بھی فرقہ وارانہ عینک سے دیکھا جائے، تو سوال یہ ہے کہ ہم بطور معاشرہ کس سمت جا رہے ہیں؟
ریاست کی غیرجانبداری پر سوالیہ نشان
ریاست کا آئین ہر شہری کو مذہبی آزادی، مساوی سلوک اور بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے، تاہم زمینی حقائق کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں۔ جب اقلیتی برادری کے افراد کو صرف "ظاہری مشابہت” یا "نیک عمل” کی بنیاد پر نشانہ بنایا جائے تو یہ ریاستی غیرجانبداری، آئینی وعدوں، اور انسانی اقدار پر کاری ضرب ہے۔
کیا ایک احمدی شہری کا بھوکے انسان کو کھانا کھلانا قابلِ سزا جرم بن چکا ہے؟
کیا مذہبی شناخت، انسانیت سے بلند ہو گئی ہے؟
کیا معاشرہ اُس نہج پر آ چکا ہے جہاں ایک دوسرے کو پانی دینے سے پہلے بھی شناخت نامہ دیکھنا پڑے گا؟
یہ سوالات صرف احمدی کمیونٹی کے لیے نہیں، ہم سب کے لیے ہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button