کالمزناصف اعوان

معاملات حیات اور اطمینان و یقین کی فضا …… ناصف اعوان

ستتر برس سے ہم اسی چکر میں الجھے ہوئے ہیں قرض پے قرض لئے جا رہے ہیں مگر خوشحالی ہم سے کوسوں دور ہے اب تو حالت یہ ہے کہ بھاری قرضے لے کر ملک کی پوری معیشت چلائی جا رہی ہے

کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے ملک میں سیاسی بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ شدید ہوتا جا رہا ہے شاید ارباب اختیار کی صحت پر اس کا اثر نہیں پڑ رہا لہذا وہ اپنے پروگراموں منصوبوں اور پالیسیوں پر عمل درآمد کیے جا رہے ہیں ۔یہ بھی درست ہے کہ تعمیر و ترقی کی جانب بڑھتے قدموں کو رُکنا نہیں چاہیے تاکہ درپیش مسائل پر قابو پا کر لوگوں کو نئی نئی سہولتوں سے مستفید ہونے کا موقع مل سکے مگر اگر ملک میں ایک بحرانی کیفیت موجود ہو تو یکسوئی میں تعطل آتا ہے لہذا اہل اختیار کو چاہیے کہ وہ آگے ضرور بڑھیں مگر دانائی یہ ہے کہ وہ اپنے سیاسی حریفوں کو بھی ہمراہ کر لیں اس میں کسی بھی قسم کا نقصان نہیں ۔دیکھا گیا ہے کہ جب تک اطمینان و یقین کی فضا قائم نہ ہو تو کسی بھی کام میں استحکام نہیں آتا ایک اضطراب سا پھیلا ہوا دکھائی دیتا ہے جس سے اتحاد و یگانگت لرز لرز جاتے ہیں لہذا سوچنے اور عمل کرنے والی قوتوں کو اس پہلو سے چشم پوشی اختیار نہیں کرنی چاہیےاور یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ انہیں کسی کی کوئی ضرورت نہیں ؟
ملک ترقی کرتے ہیں مل جل کر بیٹھنے اور چلنے سے کیونکہ کچھ رکاوٹیں بھی ہوتی ہیں راستے میں جنہیں عبور کرنا کسی ایک کے بس میں نہیں ہوتا لہذا اگر اتفاق ہو تو سب آسان ہو جاتا ہے لہذا عرض ہے تو یہ کہ موجودہ سیاسی صورت حال وطن عزیز کے لئے سود مند نہیں کہ ملک کی سب سے بڑی جماعت ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے سے محروم ہے اسے اگر ساتھ لے لیا جائے تو ہمارے دیرینہ مسائل حل ہونے میں بڑی آسانی ہو گی جتنی کوششیں اسے سکیڑنے سمٹانے کےلئے ہو رہی ہیں اِس کے بجائے اُس سے گفتگو و مزاکرات کا راستہ منتخب کر لیا جاتا ہے تو ہمیں پورا یقین ہے کہ ہماری بوجھل سیاسی فضا خوشگوار ہو سکتی ہے مگر حیرت ہے کہ اس جانب آیا ہی نہیں جا رہا پھر یہ بھی ہے کہ اگر ایک فریق گفتگو چاہتا ہے تو دوسرا اسے کمزوری تصور کرتا ہے جبکہ سیاست میں ایسا نہیں سوچا جاتا جس طرح ہم نے جنگ کے دنوں میں یکجتی و اتحاد کا مظاہرہ کیا اس طرح ملک کے وسیع تر مفاد میں اکٹھا ہوا جائے وگرنہ غربت افلاس اور غیر یقینی میں اضافہ ہوتا رہے گا جس کے خاتمے کے لئے ہمیں دوسروں کی مدد سرمایے اور قرضوں کی ضرورت پڑتی رہے گی۔
ستتر برس سے ہم اسی چکر میں الجھے ہوئے ہیں قرض پے قرض لئے جا رہے ہیں مگر خوشحالی ہم سے کوسوں دور ہے اب تو حالت یہ ہے کہ بھاری قرضے لے کر ملک کی پوری معیشت چلائی جا رہی ہے اور ان کی ادائی کے لئے بھی قرض لیا جا رہا ہے جسے کسی بڑے نے نہیں ادا کرنا عوام نے ہی اسے اتارنا ہے یہ سلسلہ طویل عرصہ سے جاری ہے بر سبیل تذکرہ یہ جو بجٹ آیا ہے اس میں جو ٹیکس لگائے گئے ہیں انہیں بھی غریب عوام نے ہی اتارنا ہے اور دلچسپ پہلو یہ کہ اس بجٹ کو تیار بھی آئی ایم ایف نے کیا ہے اور اپنی وصولی کے لئے نئے ”سوراخ“ نکالے گئے ہیں انہیں کیوں علم نہیں کہ عوام تو پہلے ہی پریشان ہیں ہر چھوٹی بڑی چیز پر وہ ٹیکس دے رہے ہیں اب تو بینکوں سے تنخواہ و پینشن لیتے وقت بھی ٹیکس کٹے گا اور تنخواہیں و پینشنیں جتنی بڑھائی گئیں وہ ٹیکس کی صورت واپس لے لی گئیں کیسی چالاکی دکھائی مداری نے کہ ایک ہاتھ دے دوسرے ہاتھ لے مگر جو سہولتیں اور مراعات اشرافیہ کو حاصلِ ہیں ان پر قرضہ دینے والے اداروں اور ملکوں کی نگاہِ عمیق نہیں پڑتی اُن کی نظر اُن پر پڑے گی بھی نہیں کیونکہ وہ اس کے نظام زر کی محافظ ہے اقتدار عوام کے حقیقی نمائندوں کے پاس بھی اسی لئے نہیں آتا۔ انتخابی طریقہ کار ہی ایسا ہے کہ عام آدمی کے لئے انتخابات میں حصہ لینا مشکل ہے لہذا ان میں مافیاز یعنی دولت والے ہی حصہ لیتے ہیں اور ”منتخب” ہوتے ہیں پھر وہ جہاں عوامی سرمایے پر ہاتھ صاف کرتے ہیں تو وہاں سرمایہ داری نظام پر بھی پہرہ دیتے ہیں ۔ اس لئے غربت ‘مہنگائی‘ بے روزگاری‘ ناانصافی اور بیماری سے جان نہیں چھوٹ رہی ہاں اس وقت چھوٹے گی جب عوام کی حکومت عوام کے لئے قائم ہو گی مگر اس کے لئے ہمت محنت اور جدو جہد چاہیے خالی خولی باتوں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا یہ جو آج ہم ترقی یافتہ اور مہذب ملکوں کو دیکھتے ہیں تو وہ ایسے ہی وجود میں نہیں آگئے انہیں طویل عرصہ تک جد جہد کرنا پڑی ہے تب جا کر ان کے ملکوں میں زندگی خوشحال و خوشگوار ہوسکی ہے اور ان میں جگمگاہٹ دکھائی دیتی ہے مگر ہم تو ابھی اس سفر پر روانہ ہی نہیں ہوئے اس جانب جانے ہی نہیں دیا گیا کہا گیا کہ یہ جو نظام ہے اسی میں فلاح ہے انصاف ہے اور خوشحالی ہے مگر ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا حکومتیں آتی گئیں جاتی گئیں وعدے کرتی رہیں دعوے کرتی رہیں عمل دس فیصد ہی کیا گیا وہ کربھی نہیں سکتی تھیں کہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کاسایہ کبھی سر سے ہٹا ہی نہیں دوسرے امریکا بہادر نے بھی ہمیں ترقی کی راہ پر نہیں جانے دیا ۔
ہمیں تو اپنے وسائل پر انحصار کرنے کی توفیق نہ ہوسکی کہ یہاں کسی چییز کی کمی نہیں ۔قیمتی ترین معدنیات جس پر صدر ٹرمپ کی للچائی نظریں پڑی ہوئی ہیں ۔تیل گیس سونا تانبا دیگر دھاتیں بے بہا موجود ہیں۔ ذرعی زمین ہے بہترین موسم ہیں مگر مجال ہے کسی حکومت نے کوئی دیر پا منصوبہ بندی کی ہو بس بڑی طاقتوں کو ہی راضی رکھنے کی کوشش کی گئی اگر ایسا نہیں تھا تو ایران سے گیس کیوں نہیں لی گئی روس سے بھی ٹیکنالوجی نہیں لی گئی ۔اج ہم بُری طرح سے قرضوں کی زنجیر سے جکڑے جا چکے ہیں جس سے آزادی حاصل کرنے کے لئے ایک ہی راستہ ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام لایا جائے ۔تمام سیاسی جماعتیں بشمول پی ٹی آئی کو ایک پلیٹ فارم پر لا کھڑا کیا جائے ایک ہی سوچ ایک ہی نعرہ کو اپنایا جائے مگر سوال یہ ہے کہ حرص وہوس کی دلدل میں دھنسنے والے ایسا کر سکیں گے ہمیں نہیں لگتا کیونکہ اُنہوں نے ہمیشہ عوام کو حقیر جانا ہے وگرنہ وہ اپنی ذہانت کو بروئے کار لا کر ان کا استحصال نہ کرتے۔یہ عوام نے ہی اپنا مستقبل روشن کرنا ہے ۔تاریخ سے ثابت ہے کہ مٹھی بھر حاکموں سے چھٹکارا جھکے ہوئے سروں نے خود حاصل کیا !

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button