
ایرانی صدر مسعود پیزشکیان کا انکشاف: "اسرائیل نے مجھے قتل کرنے کی کوشش کی”
"میں ایک میٹنگ میں تھا۔ انہوں نے اس علاقے پر بمباری کرنے کی کوشش کی جہاں ہم یہ میٹنگ کر رہے تھے۔"
تہران / واشنگٹن: ایران کے صدر مسعود پیزشکیان نے ایک تازہ انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل نے ان پر قاتلانہ حملہ کرنے کی کوشش کی، جسے وہ اپنی زندگی کا ایک سنگین اور اہم لمحہ قرار دیتے ہیں۔ یہ دعویٰ انہوں نے معروف امریکی میڈیا شخصیت ٹکر کارلسن سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، جو پیر کو نشر ہوا۔
صدر پیزشکیان سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا انہیں یقین ہے کہ اسرائیل نے انہیں قتل کرنے کی کوشش کی، تو انہوں نے واضح طور پر کہا:
"انہوں نے کوشش ضرور کی، جی ہاں۔ انہوں نے اپنے منصوبے کے مطابق عمل کیا، لیکن وہ ناکام رہے۔”
ان کے مطابق، یہ مبینہ حملہ ایک ایسی میٹنگ کے دوران کیا گیا جہاں وہ موجود تھے۔ صدر نے دعویٰ کیا کہ:
"میں ایک میٹنگ میں تھا۔ انہوں نے اس علاقے پر بمباری کرنے کی کوشش کی جہاں ہم یہ میٹنگ کر رہے تھے۔”
تاہم انہوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ آیا یہ مبینہ قاتلانہ حملہ حالیہ 12 روزہ جنگ کے دوران کیا گیا یا اس سے قبل۔
صدر پیزشکیان نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ اس مبینہ حملے کے پیچھے امریکہ کا کوئی کردار نہیں تھا۔ انہوں نے کہا:
"مجھ پر قاتلانہ حملے کی کوشش کے پیچھے امریکہ نہیں تھا، یہ اسرائیل تھا۔”
یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر رہی ہے، خصوصاً گذشتہ ماہ ہونے والی 12 روزہ جنگ کے بعد جس میں دونوں ممالک کے درمیان براہِ راست اور پراکسی محاذ آرائی دیکھی گئی۔
ایرانی صدر کے اس انکشاف سے خطے میں سلامتی اور سفارتی تعلقات پر مزید اثرات پڑ سکتے ہیں۔ اگرچہ اسرائیل کی جانب سے اس الزام پر فی الحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا، لیکن بین الاقوامی تجزیہ کار اس بیان کو ایک سنگین الزام قرار دے رہے ہیں جو علاقائی کشیدگی کو مزید ہوا دے سکتا ہے۔
ایران کی جانب سے حالیہ مہینوں میں اسرائیل پر کئی بار حملوں کی دھمکیاں دی گئی تھیں، اور اسرائیلی ذرائع نے بھی ایران پر سائبر اور فوجی حملوں کے الزامات عائد کیے تھے۔
صدر پیزشکیان کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب ایران ایک نئی قیادت کے تحت داخلی استحکام، اقتصادی بحالی اور علاقائی حکمت عملی پر توجہ دے رہا ہے۔ ان کا یہ انکشاف عالمی سفارتی برادری کی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے، بالخصوص ایسے وقت میں جب مشرقِ وسطیٰ کے کئی ممالک امن معاہدوں اور باہمی تعلقات کی بحالی کی کوششوں میں مصروف ہیں۔