کالمزسید عاطف ندیم

خدمتِ خلق کا چراغ — عبدالستار ایدھی…..سید عاطف ندیم

ایدھی صاحب کا مشہور قول تھا: "میرا مذہب انسانیت ہے" — اور حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کے ہر عمل سے اس عقیدے کو سچ ثابت کیا

دنیا میں ایسے لوگ بہت کم پیدا ہوتے ہیں جو اپنی ذات سے آگے سوچتے ہیں، جو دوسروں کی تکلیف کو اپنا درد سمجھتے ہیں، اور جو انسانیت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات بنا لیتے ہیں۔ ایسے ہی عظیم انسانوں میں ایک نمایاں نام عبدالستار ایدھی کا ہے — وہ شخص جو مخلوقِ خدا کی بے لوث خدمت کا روشن استعارہ ہے۔
عبدالستار ایدھی 28 فروری 1928 کو بھارتی ریاست گجرات کے شہر بانٹوا میں پیدا ہوئے۔ اسکول کی عمر سے ہی محمد ایدھی میں انسانیت کی خدمت کا جذبہ پنپ رہا تھا۔ 1947 میں خاندان کے ساتھ کراچی منتقل ہوئے، جہاں انہوں نے اپنا بچپن کے خواب حقیقت میں تبدیل کیا اور پورے پاکستان کے لیے مثال بنے۔ ان کے مشہور الفاظ "میرے مذہب کا نام انسانیت ہے” آج بھی ان کے فلسفے کی روشن نمائندگی کرتے ہیں۔
کبھی کبھی انسانیت اپنے کسی عظیم خادم کی شکل میں ایک ایسا چہرہ اختیار کر لیتی ہے، جو نہ صرف اپنے وقت بلکہ آنے والے زمانوں کے لیے بھی مشعلِ راہ بن جاتا ہے۔ عبدالستار ایدھی بھی ایک ایسا ہی چہرہ تھے — سادگی، خلوص اور خدمت کا ایسا پیکر جنہوں نے اپنی پوری زندگی نہ مذہب، نہ نسل، نہ زبان، بلکہ صرف اور صرف "انسان” کے لیے وقف کر دی۔
ایدھی صاحب کا مشہور قول تھا: "میرا مذہب انسانیت ہے” — اور حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کے ہر عمل سے اس عقیدے کو سچ ثابت کیا۔ 1951 میں جب انہوں نے محض پانچ ہزار روپے سے ایک چھوٹی سی ڈسپنسری اور ایک ایمبولینس سروس کا آغاز کیا، تو شاید کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ یہی اقدام پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کی سب سے بڑی رضاکارانہ فلاحی تنظیم کا پیش خیمہ بنے گا۔
ایدھی فاؤنڈیشن آج بھی 1800 سے زائد ایمبولینسز، لاوارث لاشوں کی تدفین، یتیم بچوں کی پرورش، فری کلینکس، خواتین کی پناہ گاہیں اور نرسنگ اسکولز جیسے ان گنت منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔ لیکن اس فاؤنڈیشن کی سب سے بڑی طاقت کوئی عمارت یا نظام نہیں، بلکہ وہ جذبہ ہے جسے عبدالستار ایدھی نے جنم دیا۔
ایدھی صاحب نے نہ کوئی تنخواہ لی، نہ گھر بنایا، نہ بینک بیلنس رکھا۔ وہ دو جوڑوں کے کپڑوں میں زندگی گزار کر ہمیں سکھا گئے کہ اصل دولت محبت، خلوص اور خدمت ہے۔ ان کے لیے انسان کی ذات سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں تھی — نہ مذہب، نہ ذات پات، نہ مسلک۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی خدمات کو عالمی سطح پر بھی سراہا گیا۔
انہیں نشانِ امتیاز سے لے کر رومن میگسیسے ایوارڈ تک کئی اعزازات ملے، مگر سب سے بڑا اعزاز وہ محبت تھی جو عوام نے ان کے جنازے میں شرکت سے ثابت کی۔
عبدالستار ایدھی 8 جولائی 2016 کو دنیا سے رخصت ہو گئے، مگر ان کا مشن، ان کا فلسفہ، اور ان کا جذبہ آج بھی زندہ ہے۔ ہر اس جھولے میں جہاں ایک بچہ محفوظ نیند لیتا ہے، ہر اس ایمبولینس میں جو کسی کی جان بچاتی ہے، ہر اس دل میں جو انسانیت کے لیے دھڑکتا ہے — وہاں آج بھی "ایدھی” زندہ ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم ایدھی صاحب کے مشن کو نہ صرف یاد رکھیں بلکہ اپنی عملی زندگی کا حصہ بنائیں۔ کیونکہ اگر ہم نے خدمتِ خلق کو اپنی ترجیح نہ بنایا، تو شاید انسانیت کا وہ رنگ ہی ماند پڑ جائے جسے عبدالستار ایدھی نے اپنے لہو سے سنوارا تھا۔
فاؤنڈیشن کے پیچھے کہانی
1951 میں ایدھی صاحب نے محض پانچ ہزار روپے کے ساتھ ایک چھوٹی ڈسپنسری اور ایمبولینس سروس کی بنیاد رکھی، جو بعد میں ایدھی فاؤنڈیشن کی صورت میں پہچانی گئی۔ اب یہ فاؤنڈیشن رنگ، مذہب، جنس یا قوم سے بالا تر ہو کر انسانیت کی خدمت کر رہی ہے۔ ان کا ادارہ نہ صرف پاکستان بلکہ کئی ممالک میں امداد فراہم کرتا ہے، جن میں بحرِ اوقیانوس پار ایمرجنسی ریسپانس بھی شامل ہے ۔
دنیا کی سب سے بڑی رضاکارانہ ایمبولینس نیٹ ورک چلانا، جو 7000 رضاکاروں اور صرف چند عملے کے ذریعے فعال ہے ۔ایدھی فاؤنڈیشن نے 20,000 سے زائد بے گھر بچوں کو محفوظ پناہ اور والدین فراہم کیے، جبکہ 40,000 سے زائد نرسوں کو تربیت دی.تنہائی، غربت یا بیماری کی حالت میں غرباء بزرگوں کو حفاظتی گھر مہیا کیے۔بے شناخت اور لاوارث مردوں و خواتین کی عزت و احترام کے ساتھ تدفین۔بے گھر یا تشدد کا شکار خواتین کو پناہ گاہوں میں رہائش اور سپورٹ فراہم کی۔
فری کلینکس، ڈسپنسریز اور مکمل ہسپتال نظام اُن کی خدمات کا اہم ستون ہیں، خاص طور پر کینسر کے مریضوں کی 25 بستروں والی سہولت
ابدھی صاحب نے دو جوڑے کپڑے اور ایک چپل میں زندگی گزاری، اپنا کوئی بینک اکاؤنٹ یا ذاتی گھر نہیں رکھا۔ انہوں نے کبھی فاؤنڈیشن کا ملازم معاوضہ وصول نہیں کیا ۔ ان کا روزگار ان کی اشد ضرورتوں کی بجائے دوسروں کی ضروریات کو پورا کرنے میں صرف ہوا، جو ان کی سادگی، عاجزی اور خلوص کا عملی عکس ہے۔
بلقیس بیگم، جو خود ایک تربیت یافتہ نرس تھیں، ایدھی فاؤنڈیشن کی شریکِ کار رہی ہیں۔ انہوں نے اکیلے 16,000 بچوں کو بچایا، مٹھی بھر خواتین کو تندرستی اور ہمدردی فراہم کی، اور 1986 میں ایدھی صاحب کے ساتھ Ramon Magsaysay Award بھی حاصل کیا
اگرچہ انہیں کبھی رسمی طور پر اقتدار حاصل نہیں ہوا، اور وہ 1988 میں انتخابات میں کامیاب نہ ہو سکے، مگر اُن کے اثرات نے معاشرے میں قابل قدر تبدیلیاں لائیں۔ اس دوران مقامی اور قومی فردیات نے اُن سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی ۔یہ تاثرات ان کی خدمات اور شفافیت کی علامت ہیں۔
8 جولائی 2016 کو عبدالستار ایدھی kidney failure کے باعث انتقال کر گئے۔ ان کی نمازِ جنازہ میں نہ صرف عام لوگ بلکہ فوج اور سویلین حکام نے شرکت کی۔ وہ صرف تیسرے شخص تھے جنہیں state gun carriage funeral دیا گیا
پاکستان نے ان کی یاد میں ستمبر 2016 میں ڈاک ٹکٹ جاری کیا، 2021 میں کوئِٹرہ میں مجسمہ نصب کیا اور Clifton Beach کا راستہ ان کے نام کر دیا ۔
عبدالستار ایدھی کی زندگی ہمیں یہ درس دیتی ہے:خدمت میں عظمت ہے: انسانیت کی بے لوث خدمت ہی سب سے بڑا فرض ہے۔
سادگی کا حسن: مال و دولت میں نہیں، کردار اور نیت میں انسان کی عزت ہے۔
مستقل عزم: چند روپے سے شروع ہوا منصوبہ دنیاوی مقام تک پہنچ گیا۔
اخلاص، شفافیت اور شرافت: عطیات کو ذاتی مفادات پر نہیں خرچ کیا۔
ان کے مشن پر عمل کرنا، یعنی انسانیت، محبت، قربانی اور سادگی کے جذبوں کو اپنانا، ہر فرد کے لیے ایک دینی، اخلاقی اور معاشرتی ذمہ داری ہے۔
عبدالستار ایدھی صرف ایک انسان نہیں، ایک تحریک، ایک نظریہ اور ایک علامت ہیں۔ ان کی بنیاد پر قائم ادارہ اب بھی لاکھوں انسانوں کی زندگی بچا رہا ہے اور معاشرے میں امید اور احساسِ ذمہ داری جگا رہا ہے۔ ان کے نام دیے گئے اعزازات، سونے کے تمغے، ضابطہ اخلاق یا شہرت سب وقتی ہیں، مگر سب سے قیمتی ان کے کردار کی روشنی اور انسانیت کے لیے ان کا عظیم پیغام باقی رہے گا۔
خراجِ تحسین ہی تو ہے ایک شاعر کا عبدالستار ایدھی۔
ایدھی صاحب جیسے عظیم انسان کے لیے شاعر جو کچھ بھی کہے، وہ محض جذبے کی ایک ادنیٰ سی جھلک ہوتی ہے، کیونکہ ان کی زندگی بذاتِ خود ایک مکمل شاعری تھی — درد، خدمت، قربانی اور انسانیت کا ایسا مرقع جس پر الفاظ بھی ناز کرتے ہیں۔

ایک مختصر نظم نما خراجِ تحسین جو ایک شاعر احمد نواز نے انکی عقیدت میں پیش کیا
عبدالستار ایدھی کے نام:

خاکساروں‌کو بھی عزت کی نظر سے دیکھا
تونے انسان کو احساس کے در سے دیکھا

سبھی انسان برابر نظر آئے تجھ کو
تونے مخلوق کو خالق کی نظر سے دیکھا

راندہئہ دہر بھی تجھ کو لگے اپنےبچے
تونے ہر طفل جہاں چشم پدر سے دیکھا

"ایدھی چلا گیا، لیکن ایدھی کا جذبہ، اس کی سچائی اور اس کا مشن آج بھی زندہ ہے — ہر اُس دل میں جو انسانیت پہچانتا ہے، ہر اُس سانس میں جو انسانیت کو انعام جانتا ہے، اور ہر اُس قدم میں جو دوسروں کی مدد کے لیے اٹھتا ہے۔”
ایدھی ایک نام نہیں، ایک پیغام ہے — اور یہ پیغام ہے انسانیت کا، محبت کا، اور خدمت کا۔

وہ جو راتوں کو جاگتا تھا،
بے زبانوں کی سنتا فریاد تھا۔
نہ کوئی دنیاوی تمنا، نہ سود،
بس "انسان” ہی اس کا معبود۔

چند سکے، اک ایمبولینس،
اور ارادوں میں تھی روشنی کی شروعات،
سڑکوں پہ لاشیں اٹھاتا رہا،
دکھ میں بھی وہ سب کا ساتھی رہا۔

نہ چمکتے لباس، نہ محلات تھے،
دو جوڑے کپڑے، اور چپل ساتھ تھے،
س simplicity میں وہ بادشاہ نکلا،
خدمت کا بے تاج بادشاہ نکلا۔

نہ مذہب کا فرق، نہ رنگوں کی جنگ،
ہر شخص اس کی چھاؤں میں تنگ،
ایدھی کے جھولے میں پلتے خواب،
بے آواز بچوں کی سنبھالتے باب۔

بلقیس اس کے سفر کی رفیق،
دونوں کی خدمت رہی بے حد دقیق،
زندگی ان کی ایک دعا بنی،
قوم کے لیے محبت کی صدا بنی۔

اب وہ نہیں، پر اس کا کام باقی ہے،
ہر یتیم کی مسکراہٹ میں وہی روشنی ہے،
ایدھی گیا، پر جذبہ نہیں گیا،
انسانیت کا دیا کبھی بجھا نہیں گیا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button