
اردو جاسوسی ادب کے بے تاج بادشاہ ابنِ صفی کی یاد میں: وہ جو ہنسا بھی گئے اور رُلا بھی گئے
ابنِ صفی آج بھی زندہ ہیں، ہر اس صفحے میں، ہر اس مکالمے میں، جو قاری کو سوچنے، ہنسنے اور محسوس کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
(خصوصی رپورٹ وائس آف جرمنی):
26 جولائی، اردو ادب کی تاریخ میں ایک اہم اور منفرد دن ہے۔ یہ وہ دن ہے جب 1928 کو ہندوستان کے شہر الہ آباد کے قصبے نارا میں اسرار احمد نامی ایک بچے نے آنکھ کھولی، جو آگے چل کر اردو ادب میں "ابنِ صفی” کے نام سے پہچانا گیا — وہ مصنف جنہوں نے اردو میں نہ صرف جاسوسی ناول کو ایک نئی زندگی بخشی بلکہ اس میں مزاح، رومان، فلسفہ اور معاشرتی نفسیات کی ایسی پرتیں شامل کیں کہ ان کی کہانیاں نسل در نسل مقبول ہوتی چلی گئیں۔
ابنِ صفی: ایک ایسا نام جو صنفِ جاسوسی کا مترادف بن گیا
ابنِ صفی کو اگر اردو کا "سر آرthur کونن ڈوئل” کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، لیکن ان کا تخلیقی دائرہ اس سے بھی کہیں وسیع تھا۔ جہاں مغرب کے جاسوسی مصنفین صرف جرم اور اس کے حل پر توجہ دیتے ہیں، وہیں ابنِ صفی کے کردار قاری کو ہنساتے بھی تھے، سوچنے پر مجبور بھی کرتے تھے، اور بعض اوقات درد میں مبتلا بھی کر دیتے تھے۔
ان کی تحریروں میں سسپنس کے ساتھ شائستہ مزاح، سیاسی و سماجی طنز، نفسیاتی پیچیدگیاں، اور سنجیدہ فلسفہ ایک ایسی ہم آہنگی کے ساتھ شامل ہوتا کہ قاری ایک ہی نشست میں ناول ختم کیے بغیر اُٹھ نہ پاتا۔
مطالعے کا شوق: بچپن سے جاسوسی کی دنیا تک
ابنِ صفی کو مطالعے کا شوق بچپن سے ہی تھا۔ سات آٹھ سال کی عمر میں انہوں نے "طلسم ہوشربا” کی ساتوں جلدیں پڑھ ڈالیں۔ وہ والدہ کی سرپرستی اور ہمدردی کے باعث اس شوق کو پروان چڑھانے میں کامیاب رہے۔ الہ آباد میں قیام کے دوران انہوں نے مغربی ادب کا مطالعہ کیا، اور رائیڈر ہیگرڈ جیسے مغربی مصنفین کے تراجم ان کے ابتدائی تخلیقی سفر کا حصہ بنے۔
پہلی کہانی "ناکام آرزو” تھی، جو رومانوی نوعیت کی تھی، اور اس کے بعد انہوں نے طنز و مزاح اور سنجیدہ مضامین لکھنے شروع کیے۔ مگر اُن کے اندر چھپے ’جاسوس نویس‘ نے اس وقت انگڑائی لی جب اردو ادب میں یہ کہا جانے لگا کہ صرف جنسی کہانیاں ہی مارکیٹ بنا سکتی ہیں۔ ابنِ صفی نے اس مفروضے کو رد کیا اور "دلیر مجرم” کے ساتھ جاسوسی دنیا میں قدم رکھا۔
جاسوسی دنیا اور عمران سیریز: اردو ادب میں انقلاب
1952 میں "دلیر مجرم” کے ساتھ انہوں نے فریدی اور حمید جیسے کردار متعارف کروائے، جو جلد ہی قارئین کے دلوں میں گھر کر گئے۔ 1955 میں "خوفناک عمارت” کے ذریعے عمران اور اس کے خفیہ ادارے کی دُنیا کھلی۔ ان کرداروں میں انفرادیت، زبان کی برجستگی، اور معاشرتی استعاروں کی گہرائی ایسی تھی کہ وہ محض فرضی کردار نہ رہے بلکہ اردو ادب کا حصہ بن گئے۔
جہاں فریدی سنجیدہ، اصول پسند اور پُرعزم کردار تھا، وہیں حمید کی بذلہ سنجی اور بے ساختگی قاری کو ہر بار ہنسا دیتی۔ عمران کا کردار، جو بظاہر لاپرواہ اور شوخ مزاج تھا، دراصل ایک سنجیدہ اور انتہائی ذہین جاسوس کی علامت تھا — ایسا کردار جو عقل و جذبات کی الجھنوں کو اپنے انداز میں سلجھاتا۔
بیماری، خاموشی، اور دوبارہ عروج
1961 میں ابنِ صفی شیزوفرینیا کا شکار ہوئے اور وہ تین برس خاموش رہے۔ اس وقت تک وہ فریدی حمید سیریز کے 88 اور عمران سیریز کے 41 ناول لکھ چکے تھے۔ بیماری کے دوران کئی جعلی مصنفین ان کے نام یا مشابہ ناموں سے ناول شائع کرتے رہے، مگر قاری جلد ہی سمجھ گیا کہ ابنِ صفی جیسا کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ وہ واپس آئے، اور پہلے سے بھی زیادہ شدت اور توانائی کے ساتھ قلم کو چلایا۔
ایک مہینے، ایک ناول
ابنِ صفی کا تخلیقی سفر بے مثال تھا۔ انہوں نے 28 برسوں میں 245 ناول لکھے — یعنی اوسطاً ہر مہینے ایک ناول! یہ ناول نہ صرف اردو میں شائع ہوئے بلکہ کئی زبانوں میں ان کے تراجم بھی ہوئے۔
اگاتھا کرسٹی جیسی بین الاقوامی مصنفہ نے بھی ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ "برصغیر میں صرف ایک ہی سچا جاسوسی ناول نگار ہے — ابن صفی۔”
مزاح اور سسپنس: دو انتہاؤں کا حسین امتزاج
ابنِ صفی کا کمال یہ تھا کہ وہ قاری کو بیک وقت ہنساتے اور چکرا دیتے تھے۔ ان کا مزاح نہ تو سطحی تھا اور نہ ہی محض ہنسی کے لیے، بلکہ وہ سماجی رویوں، سیاسی تضادات اور انسانی کمزوریوں پر گہرا طنز بھی تھا۔ ان کا انداز ایسا تھا کہ مزاح میں بھی سچائی بولتی تھی۔
ان کے ناول "ڈیڑھ متوالے” سے لیا گیا ایک مکالمہ دیکھیں:
’سردار جعفری کے متعلق کیا خیال ہے؟‘
’پتھر توڑتے ہیں!‘
یہ برجستگی، یہی بے ساختگی، ان کے قلم کی پہچان تھی۔
شاعری: اسرار نانوروی کے رنگ میں
ابنِ صفی صرف نثر کے بادشاہ نہ تھے، وہ ایک خوبصورت شاعر بھی تھے۔ اسرار نانوروی کے نام سے ان کی شاعری نے بھی ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کی۔ ان کی غزلیں آج بھی کلاسیکی طرزِ گائیکی میں گائی جاتی ہیں۔ ان کا ایک معروف شعر:
لکھنے کو لکھ رہے ہیں غضب کی کہانیاں
لیکن نہ لکھ سکے کبھی اپنی ہی داستاں
یہ صرف ایک شعر نہیں، شاید ان کی پوری زندگی کا خلاصہ ہے۔
وفات اور ادبی وراثت
ابنِ صفی 26 جولائی 1980 کو صرف 52 سال کی عمر میں داغِ مفارقت دے گئے۔ لیکن وہ اپنی 245 تحریروں کے ذریعے اردو ادب میں ہمیشہ کے لیے زندہ ہو گئے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک ایسی صنف کو تخلیقی وقار بخشا جو اس سے پہلے محض سنسنی خیزی کے لیے جانی جاتی تھی۔ انہوں نے اسے ادب کا حصہ بنایا۔
اختتامی کلمات
ابنِ صفی صرف ایک جاسوسی مصنف نہیں تھے، وہ ایک دانشور، ایک نقاد، ایک ماہرِ نفسیات، ایک مزاح نگار، اور ایک فنکار تھے۔ ان کا تخلیقی سرمایہ آج بھی پڑھنے والوں کے لیے تازگی کا احساس رکھتا ہے۔ چاہے وہ عمران کی شوخی ہو یا فریدی کی سنجیدگی، انسپکٹر حمید کی بذلہ سنجی ہو یا قربان علی کا سادہ دل رویہ — ابنِ صفی کا ہر کردار اردو ادب کا لازوال سرمایہ ہے۔
ابنِ صفی آج بھی زندہ ہیں، ہر اس صفحے میں، ہر اس مکالمے میں، جو قاری کو سوچنے، ہنسنے اور محسوس کرنے پر مجبور کرتا ہے۔



