
اسرائیل کی جیلوں اور حراستی مراکز میں خواتین اور بچوں سمیت 10 ہزار سے زائد فلسطینی قید
ان قیدیوں میں 50 خواتین بھی شامل ہیں جن میں سے دو کا تعلق غزہ کی پٹی سے ہے جبکہ 450 سے زائد بچے بھی قید ہیں۔
فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے لیے مہم چلانے والے ایڈووکیسی گروپس کا کہنا ہے کہ ’اس وقت اسرائیلی جیلوں میں فلسطین سے تعلق رکھنے والے 10 ہزار سے زائد قیدی موجود ہیں۔‘
ایڈووکیسی گروپس کا مزید کہنا ہے کہ ’یہ 2000 میں دوسری انتفاضہ کے بعد اسرائیل میں فلسطینی قیدیوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔‘
عرب نیوز کے مطابق جولائی کے آغاز تک اسرائیل کے حراستی مراکز اور جیلوں میں تقریباً 10 ہزار 800 قیدی موجود تھے۔
ان قیدیوں میں 50 خواتین بھی شامل ہیں جن میں سے دو کا تعلق غزہ کی پٹی سے ہے جبکہ 450 سے زائد بچے بھی قید ہیں۔
اِن اعدادوشمار میں وہ افراد شامل نہیں جو اسرائیل کے فوجی کیمپوں میں زیرِ حراست ہیں جیسا کہ جہاں غزہ کے بہت سے رہائشیوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ حراست میں ہیں اور اُنہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اس وقت اسرائیل کی جانب سے مجموعی طور پر 3 ہزار 629 فلسطینیوں کو ایک حکم نامے کے تحت انتظامی حراست میں رکھا گیا ہے۔
یہ حکم نامہ اسرائیلی حکام کو کسی بھی قیدی کو چھ ماہ تک بغیر کسی مقدمے کے قید میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے اور اس کی غیر معینہ مدت تک تجدید بھی ہو سکتی ہے۔
ان میں سے 2 ہزار 454 ایسے افراد بھی ہیں جن کا تعلق لبنان، شام اور بعض دیگر عرب ممالک سے ہے اور انہیں جنگی قیدیوں کا درجہ حاصل نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کی 2023 کی ایک رپورٹ کے مطابق ’غزہ کی پٹی، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر 1967 میں ہونے والے قبضے کے بعد 8 لاکھ سے زائد فلسطینی مختلف اوقات کے دوران اسرائیلی جیلوں میں قید رہ چکے ہیں۔‘