کالمزسید عاطف ندیم

اسرائیلی ہٹ دھرمی برقرار — عالمی ضمیر کا امتحان…….سید عاطف ندیم

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے کئی بار فلسطین کے حق میں قراردادیں منظور کی ہیں

بین الاقوامی انسانی حقوق، اقوام متحدہ کی قراردادیں، اور عالمی رائے عامہ — یہ تمام عناصر جنہیں کسی بھی مہذب معاشرے میں انسانیت کا تحفظ سمجھا جاتا ہے، اسرائیل کے لیے محض کاغذی دستاویزات بن چکے ہیں۔ غزہ میں کئی ماہ سے جاری انسانی المیہ صرف ایک جنگی کارروائی نہیں، بلکہ بین الاقوامی اصولوں، اخلاقی اقدار اور قانون کے نظام کی کھلی توہین ہے۔ اسرائیل کی جارحیت، نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی، اور عالمی طاقتوں کی خاموشی نے دنیا کو ایک ایسے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے جہاں انسانی ضمیر کا امتحان جاری ہے۔

گزشتہ مہینوں میں اسرائیلی بمباری نے غزہ کو ایک کھلے قبرستان میں تبدیل کر دیا ہے۔ اسپتال تباہ ہو چکے، اسکولوں کی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئی ہیں، اور بنیادی زندگی کی سہولیات — جیسے پانی، بجلی، دوائیں — تک ناپید ہو چکی ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق، ہزاروں بچوں سمیت عام شہری اس جارحیت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، مگر اسرائیل کی کارروائیوں میں کوئی نرمی نہیں آئی۔ یہ سب کچھ دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر کیا جا رہا ہے، حالانکہ حقائق یہ بتاتے ہیں کہ اسرائیلی کارروائیاں کسی خاص عسکری گروہ نہیں بلکہ پورے فلسطینی معاشرے کے خلاف ہیں۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے کئی بار فلسطین کے حق میں قراردادیں منظور کی ہیں، جن میں سیزفائر، امداد کی فراہمی، اور جنگی جرائم کی تحقیقات جیسے نکات شامل ہیں۔ مگر اسرائیل نے ہر بار ان قراردادوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ اس بے حسی کا سب سے بڑا سہارا — امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں کی غیر مشروط حمایت اور ویٹو پاور ہے، جو کسی بھی سنجیدہ کارروائی کو روکنے میں حائل ہو جاتی ہے۔

یہ صورتحال نہ صرف اقوام متحدہ کی ساکھ پر سوال اٹھاتی ہے، بلکہ عالمی انصاف کے پورے نظام کو کمزور کر دیتی ہے۔ کیا دنیا کے کچھ ممالک قانون سے بالاتر ہیں؟ اگر ویٹو پاور انسانی حقوق کو روندنے کا ہتھیار بن جائے، تو کیا ایسی طاقتوں کو مہذب دنیا کا محافظ سمجھا جا سکتا ہے؟

اقوام متحدہ، یورپی یونین، عرب لیگ اور دیگر عالمی قوتیں دہائیوں سے دو ریاستی حل کا راگ الاپ رہی ہیں، مگر اسرائیل کے عملی اقدامات اس کے بالکل برعکس ہیں۔ غرب اردن میں غیر قانونی بستیوں کی تعمیر، بیت المقدس کو مکمل طور پر اسرائیلی دارالحکومت قرار دینا، اور غزہ کی ناکہ بندی جیسے اقدامات اس حل کو مسلسل دفن کرتے آ رہے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل حقیقتاً امن چاہتا ہے، یا وہ صرف اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں کے ذریعے فلسطینی ریاست کے قیام کو ہمیشہ کے لیے روکنا چاہتا ہے؟

اسرائیل کی جارحیت کے خلاف صرف بیانات، قراردادیں یا مظاہرے کافی نہیں۔ اگر اقوام متحدہ واقعی اپنی ساکھ بچانا چاہتی ہے تو اسے اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی عدالت انصاف میں فوری طور پر جنگی جرائم کے مقدمات دائر کرنے چاہئیں۔ اسی طرح، اسلامی دنیا کو بھی اب صرف مذمتی بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ سفارتی سطح پر دباؤ، تجارتی بائیکاٹ، اور مشترکہ پالیسی سازی ہی وہ راستے ہیں جو اسرائیل کو روک سکتے ہیں۔

اسرائیلی ہٹ دھرمی آج صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ پوری دنیا کے لیے انسانی حقوق، عالمی قانون اور اخلاقی نظام کا بحران ہے۔ اگر آج خاموشی برقرار رہی، تو کل کوئی دوسرا ملک، کسی اور قوم کے خلاف ایسے ہی مظالم ڈھائے گا — کیونکہ وہ جان لے گا کہ دنیا صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے۔

یہ وقت ہے کہ عالمی برادری، خاص طور پر وہ طاقتیں جو خود کو انسانی حقوق کی علمبردار کہتی ہیں، عملی اقدامات سے ثابت کریں کہ وہ صرف مفادات کی نہیں، انسانیت کی بھی سیاست کرتی ہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button