
بھارت کے اسکول میں شرمناک واقعہ: ماہواری کی جانچ کے نام پر طالبات کو برہنہ کیا گیا، پرنسپل اور معاون گرفتار، مقدمہ درج
ایک خاتون چپراسی کو اس غیر انسانی عمل میں استعمال کیا گیا، جس نے مبینہ طور پر کئی لڑکیوں کو زبردستی برہنہ کیا اور ان کے جسم کا "معائنہ" کیا
تھانے، مہاراشٹر — بھارت کی ریاست مہاراشٹر کے ضلع تھانے میں ایک سرکاری اسکول میں پیش آنے والا ایک افسوسناک واقعہ ملک بھر میں غم و غصے کی لہر کا باعث بن گیا ہے، جہاں پانچویں سے دسویں جماعت کی متعدد طالبات کو مبینہ طور پر ماہواری چیک کرنے کے بہانے برہنہ کیا گیا۔ پولیس نے اس واقعے کے بعد اسکول کی پرنسپل اور ایک معاون خاتون کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ دیگر اساتذہ سمیت 10 افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔
واقعے کی تفصیلات: بچیوں کی تذلیل کا تکلیف دہ منظر
پولیس کے مطابق یہ واقعہ تھانے کے ایک دیہی اسکول میں پیش آیا، جہاں عملے کو اسکول کے بیت الخلاء میں خون کے دھبے نظر آئے۔ اس کے بعد اسکول انتظامیہ نے بغیر کسی تحقیق یا سائنسی بنیاد کے یہ طے کیا کہ دھبے کی وجہ طالبات کی ماہواری ہو سکتی ہے۔ چنانچہ پانچویں سے دسویں جماعت کی تمام طالبات کو اسکول کے کنونشن ہال میں اکٹھا کیا گیا، جہاں نہ صرف بیت الخلاء کی تصاویر پروجیکٹر پر دکھائی گئیں بلکہ انہیں اپنی ماہواری کی حالت ظاہر کرنے پر مجبور کیا گیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ طالبات کو دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا: ایک گروہ ان لڑکیوں کا تھا جنہیں ماہواری آ چکی تھی، اور دوسرا وہ جنہوں نے بتایا کہ انہیں ابھی تک ماہواری شروع نہیں ہوئی۔ انکار کرنے والی کچھ طالبات کو واش روم لے جا کر برہنہ حالت میں چیک کیا گیا۔
ایک خاتون چپراسی کو اس غیر انسانی عمل میں استعمال کیا گیا، جس نے مبینہ طور پر کئی لڑکیوں کو زبردستی برہنہ کیا اور ان کے جسم کا "معائنہ” کیا تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ انہیں ماہواری ہو رہی ہے یا نہیں۔ یہ واقعہ نہ صرف قانون بلکہ انسانی وقار کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔
والدین کا احتجاج اور کارروائی
لڑکیاں روتی ہوئی اپنے گھروں کو واپس گئیں اور جب والدین کو اس ظلم کی تفصیلات معلوم ہوئیں تو اسکول کے باہر شدید احتجاج کیا گیا۔ والدین نے اسکول انتظامیہ اور متعلقہ اساتذہ کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔
پولیس کے مطابق ایک والد نے باضابطہ شکایت درج کرائی، جس پر فوری طور پر اسکول کی پرنسپل، چار اساتذہ، ایک اٹینڈنٹ، اور دو اسکول ٹرسٹیوں سمیت دس افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔ پرنسپل اور ایک معاون کو فوری طور پر گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔
مقدمہ "پوسکو ایکٹ (POCSO – Protection of Children from Sexual Offences Act)” کے تحت درج کیا گیا ہے، جو بچوں کے خلاف جنسی تشدد کے جرائم کے لیے بھارت میں نافذ ایک سخت قانون ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ تفتیش کے دوران مزید گرفتاریاں متوقع ہیں۔
نفسیاتی اثرات اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی
اس واقعے نے بچوں کے بنیادی انسانی حقوق کو بری طرح پامال کیا ہے۔ ماہرین تعلیم اور بچوں کے تحفظ کے اداروں نے اس عمل کو "تشدد اور ہراسانی کی بدترین مثال” قرار دیا ہے۔
بچوں کے حقوق پر کام کرنے والی ایک سماجی کارکن دیپا نائک کا کہنا تھا،
"یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے بچوں کی جسمانی اور ذہنی سلامتی کے لیے کس قدر غیر محفوظ ہو چکے ہیں۔ ماہواری جیسے فطری عمل کو شرمندگی اور سزا کا ذریعہ بنانا ذہنی زیادتی ہے۔”
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اساتذہ کی تربیت، اسکولوں میں جنسی تعلیم، اور والدین کو آگاہی دی جائے تاکہ اس قسم کی حرکات دوبارہ نہ دہرائی جا سکیں۔
سوشل میڈیا پر شدید ردعمل
سوشل میڈیا پر بھی اس واقعے کی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔ کئی مشہور سماجی کارکنوں، سیاستدانوں، اور فنکاروں نے طالبات کے ساتھ ہونے والے سلوک پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ٹویٹر پر #JusticeForSchoolGirls اور #StopPeriodShaming جیسے ہیش ٹیگز ٹرینڈ کر رہے ہیں، جن کے ذریعے لوگ حکومت سے فوری انصاف اور سخت کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ماہواری سے متعلق غلط تصورات اور شرمندگی کی فضا
ماہواری سے متعلق بدنامی اور غلط فہمیاں بھارت سمیت کئی جنوبی ایشیائی ممالک میں آج بھی گہری جڑیں رکھتی ہیں۔ یہ واقعہ ایک بار پھر اس معاشرتی المیے کو اجاگر کرتا ہے کہ کس طرح قدرتی حیاتیاتی عمل کو شرمندگی اور تذلیل کا باعث بنایا جاتا ہے۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر سمرن لوتھرا کے مطابق،
"ایسے واقعات نہ صرف بچوں کی ذہنی صحت پر شدید منفی اثر ڈالتے ہیں بلکہ انہیں خود اعتمادی سے محروم کر دیتے ہیں۔ ہمیں اسکولوں میں مثبت جنسی تعلیم اور حیاتیاتی آگاہی کی فوری ضرورت ہے۔”
حکومت اور تعلیمی بورڈ کی خاموشی پر سوالیہ نشان
تاحال مہاراشٹر کی ریاستی حکومت یا مرکزی وزارت تعلیم کی طرف سے اس معاملے پر کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا، جس پر عوامی حلقے اور سول سوسائٹی سوال اٹھا رہی ہے۔
انسانی حقوق کمیشن اور نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (NCPCR) نے واقعے کا نوٹس لینے کا عندیہ دیا ہے۔
نتیجہ: بچیوں کے حقوق کی پامالی ناقابل قبول
یہ واقعہ بھارت میں تعلیمی اداروں میں بچوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر ایک سنگین سوالیہ نشان ہے۔ جب تک معاشرتی رویے، اسکول پالیسیز، اور سرکاری ادارے بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات نہیں کرتے، ایسے واقعات کا دہرایا جانا ممکن ہے۔
یہ صرف انصاف کا معاملہ نہیں، یہ ایک نسل کی عزت، وقار، اور ذہنی صحت کا مسئلہ ہے — اور اس کا حل فوری، سنجیدہ اور نتیجہ خیز ہونا چاہیے۔