اہم خبریںپاکستان پریس ریلیز

پاکستان میں غیر ملکیوں کا عالمی فراڈ نیٹ ورک بے نقاب:کال سینٹر پر چھاپہ، 71 غیر ملکیوں سمیت 149 افراد گرفتار

یہ جعلی نیٹ ورک عوام کو دھوکہ دے کر ان سے غیر قانونی طور پر بھاری رقوم اکٹھی کر رہا تھا

سید عاطف ندیم-پاکستان

پاکستان کی نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی (NCCIA) نے ایک بڑی کارروائی میں فیصل آباد کے ایک جعلی کال سینٹر پر چھاپہ مار کر 149 افراد کو گرفتار کر لیا، جن میں 71 غیر ملکی شہری شامل ہیں۔ یہ نیٹ ورک مبینہ طور پر پونزی اسکیموں، جعلی سرمایہ کاری، اور سوشل میڈیا کے ذریعے مالی دھوکہ دہی میں ملوث تھا۔ گرفتار ہونے والے غیر ملکیوں میں سب سے بڑی تعداد چینی شہریوں کی ہے، جبکہ دیگر کا تعلق نائجیریا، فلپائن، سری لنکا، بنگلہ دیش، زمبابوے، اور میانمار سے ہے۔


کارروائی کی تفصیلات: عالمی سطح کا فراڈ نیٹ ورک بے نقاب

نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق یہ چھاپہ خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر کیا گیا۔ ادارے نے انکشاف کیا کہ فیصل آباد کے پوش علاقے میں قائم اس "کال سینٹر” کی آڑ میں دراصل ایک عالمی سطح کا فراڈ نیٹ ورک کام کر رہا تھا۔

بیان کے مطابق،

"یہ جعلی نیٹ ورک عوام کو دھوکہ دے کر ان سے غیر قانونی طور پر بھاری رقوم اکٹھی کر رہا تھا، جنہیں مختلف کرپٹو پلیٹ فارمز اور آن لائن ٹرانزیکشن سروسز کے ذریعے بیرونِ ملک منتقل کیا جا رہا تھا۔”

چھاپہ فیصل آباد کے پاور گرڈ کے سابق سربراہ تحسین اعوان کی رہائش گاہ پر مارا گیا، جو مبینہ طور پر اس نیٹ ورک کا میزبان تھا۔ تاہم حکام کے مطابق انہیں ابھی گرفتار نہیں کیا گیا، لیکن ان کا کردار تفتیش کے دائرے میں ہے۔


ملزمان کا طریقہ واردات: ٹک ٹاک، یوٹیوب اور ٹیلی گرام پر سرمایہ کاری کا جھانسہ

ایجنسی کے مطابق ملزمان نے واٹس ایپ، ٹیلی گرام، اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جعلی گروپس بنا رکھے تھے، جہاں وہ عام لوگوں کو "آن لائن کمائی” کے نام پر مختلف کاموں کی ترغیب دیتے تھے۔ ان میں یوٹیوب چینلز سبسکرائب کرنا، ٹک ٹاک ویڈیوز پر لائکس دینا، یا فالوورز بڑھانا شامل تھا۔

ابتدائی طور پر لوگوں کو چھوٹے کاموں کے بدلے چند سو روپے یا ڈالرز کا انعام دیا جاتا، تاکہ وہ اعتماد میں آ جائیں۔ بعد ازاں انہیں بڑے پراجیکٹس کے لیے ٹیلی گرام پر منتقل کیا جاتا، جہاں ان سے ہزاروں روپے بطور "سرمایہ کاری” لیے جاتے۔

مزید یہ کہ فراڈ کرنے والے افراد متاثرین سے یہ وعدہ کرتے تھے کہ انہیں منافع کے ساتھ ان کی رقم واپس ملے گی، لیکن ایک بار سرمایہ کاری کے بعد ان کے ساتھ رابطہ ختم کر دیا جاتا، یا نئے بہانوں سے مزید رقوم بٹوری جاتیں۔


گرفتار شدگان: 18 خواتین سمیت 71 غیر ملکی شہری شامل

کارروائی کے دوران گرفتار ہونے والوں میں 78 پاکستانی شہریوں کے ساتھ ساتھ 48 چینی، اور دیگر ممالک کے 23 شہری شامل ہیں۔ گرفتار ہونے والی خواتین کی تعداد 18 ہے، جو مختلف نوعیت کے آن لائن فراڈ میں براہِ راست ملوث تھیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ان افراد کو باقاعدہ تربیت دی گئی تھی کہ کس طرح سادہ لوح افراد کو باتوں میں الجھا کر ان سے سرمایہ نکلوایا جائے۔ ان کے پاس جدید کمپیوٹر سسٹمز، موبائل فونز، انٹرنیٹ سافٹ ویئرز، اور VPN سروسز موجود تھیں۔


متاثرین کی رقم واپس ملنے کی امید

پولیس کے مطابق اس نیٹ ورک کی جانب سے فراڈ کا شکار ہونے والے شہریوں کو ان کی کچھ رقوم واپس دلوانے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ تفتیشی حکام نے بتایا کہ نیٹ ورک سے برآمد ہونے والی کمپیوٹرائزڈ معلومات، بینکنگ ڈیٹا، اور ڈیجیٹل ٹریلز کی مدد سے متاثرین کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔

بیان میں کہا گیا،

"ہم متاثرہ افراد سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ سامنے آ کر اپنی شکایات درج کرائیں تاکہ رقم کی واپسی اور مزید قانونی کارروائی میں مدد مل سکے۔”


قانونی کارروائی: سائبر کرائم، منی لانڈرنگ، اور پونزی اسکیم ایکٹ کے تحت مقدمات

گرفتار شدگان پر سائبر کرائم ایکٹ 2016، انسداد منی لانڈرنگ قوانین، اور پونزی اسکیمز سے متعلق دفعات کے تحت مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔ تحقیقات کا دائرہ کار ملک کے دیگر بڑے شہروں تک بھی بڑھا دیا گیا ہے، جہاں ایسے ہی جعلی نیٹ ورکس کے فعال ہونے کا شبہ ہے۔

این سی سی آئی اے کے ایک سینیئر افسر نے بتایا،

"ہم نے ایک بین الاقوامی نیٹ ورک کے صرف ایک سیل کو بے نقاب کیا ہے۔ اب ہماری کوشش ہے کہ ان کے دیگر ساتھیوں، مالی روابط، اور بیرون ملک موجود نیٹ ورکس کو بھی ٹریس کیا جائے۔”


ماہرین کی رائے: ڈیجیٹل فراڈ کے خلاف مربوط اقدامات کی ضرورت

ڈیجیٹل سیکیورٹی ماہرین اور سائبر قانون کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات میں اضافہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان میں سائبر فراڈ کے خلاف سخت اور بروقت کارروائی کی اشد ضرورت ہے۔

سائبر سیکیورٹی تجزیہ کار نعمان احمد کے مطابق:

"آن لائن سرمایہ کاری اور کمائی کے جھانسے اب ایک منظم کاروبار بن چکے ہیں۔ عوام میں آگاہی نہ ہونے کے باعث ایسے نیٹ ورکس روزانہ درجنوں افراد کو شکار بنا رہے ہیں۔”


نتیجہ: ایک سنگین مسئلہ جس کے لیے عوامی شعور اور ادارہ جاتی اقدامات ناگزیر ہیں

فیصل آباد میں پکڑا جانے والا یہ نیٹ ورک پاکستان میں بڑھتے ہوئے ڈیجیٹل فراڈ کے مسئلے کی ایک واضح مثال ہے۔ جہاں ایک جانب قانون نافذ کرنے والے ادارے بروقت کارروائی کر رہے ہیں، وہیں عوامی سطح پر بھی شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایسے دھوکہ دہی کے جال سے بچا جا سکے۔

سرمایہ کاری یا کمائی کے کسی بھی دعوے پر اندھا یقین کرنے سے پہلے تحقیق اور محتاط رویہ اپنانا ہی واحد حل ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button