مشرق وسطیٰاہم خبریں

اگر دوبارہ حملہ ہوا تو ہمارا رد عمل زیادہ فیصلہ کن اور تکلیف دہ ہو گا : ایرانی صدر

پزشکیان کا کہنا ہے کہ تہران کا بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ساتھ تعاون، ایرانی جوہری معاملے پر ایجنسی کے "دہرے معیار" کو درست کرنے سے مشروط ہے

تہران: ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے جمعرات کے روز خبردار کیا کہ اگر ایران پر دوبارہ حملہ کیا گیا تو تہران کا رد عمل "زیادہ فیصلہ کن اور تکلیف دہ” ہو گا۔ ایرانی خبررساں ادارے "میزان” کے مطابق، انھوں نے یورپی کونسل کے صدر انتونیو کوسٹا کو فون پر بتایا کہ ایران اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے درمیان تعاون کا انحصار اس بات پر ہے کہ ایجنسی اپنے "دہرے معیارات” کو درست کرے۔ خبر رساں ایجنسی "اِرنا” کے مطابق، پزشکیان نے گزشتہ برسوں میں ایران اور ایجنسی کے درمیان اصولی اور وسیع تعاون کا حوالہ دیا۔

دوسری جانب اسرائیلی انٹیلی جنس ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ امریکا کی جانب سے گزشتہ ماہ ایرانی ایٹمی تنصیبات پر حملوں سے قبل فوردو، نطنز اور اصفہان میں موجود افزودہ یورینیئم کو منتقل نہیں کیا گیا تھا۔ فرانسیسی انٹیلی جنس چیف نکولا لیرنر نے تصدیق کی کہ ان حملوں سے ایرانی جوہری پروگرام کو کئی ماہ پیچھے دھکیل دیا گیا ہے، اور بعض مقامات پر اعلیٰ افزودہ یورینیئم کا ذخیرہ تباہ ہو چکا ہے۔

یورپی حکام نے انکشاف کیا کہ ان حملوں نے تہران میں شدید غصے کی لہر پیدا کر دی، اور اب ایران ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کے لیے پہلے سے زیادہ پُرعزم دکھائی دیتا ہے۔ اس تناظر میں، انھوں نے ایک نئے معاہدے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ ایران کو خفیہ طور پر ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے سے روکا جا سکے۔

ایرانی صدر نے گزشتہ ہفتے وہ قانون منظور کیا جس کے تحت ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون معطل کر دیا گیا، اور ایجنسی نے اپنے آخری معائنہ کار واپس بلا لیے۔ ایران اور ایجنسی کے تعلقات اس وقت بگڑے جب جون میں امریکا اور اسرائیل نے ایرانی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کیا۔ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام صرف پُر امن مقاصد کے لیے ہے اور وہ ایٹمی ہتھیار حاصل نہیں کرنا چاہتا۔ ایران کا الزام ہے کہ ایجنسی نے امریکا اور اسرائیل کے حملوں کی مذمت نہ کر کے ان کے لیے راستہ ہموار کیا، اور اس کے خلاف جاری کردہ قرارداد نے حملے کا جواز فراہم کیا۔

ان حملوں کے نتیجے میں ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روز تک جنگ جاری رہی، جس میں ایران نے ڈرون کے ساتھ میزائل داغے۔ اس کے بعد سے ایجنسی کے معائنہ کار ایرانی تنصیبات میں داخل نہیں ہو سکے۔ ایجنسی کے سربراہ رافائل گروسی نے کہا ہے کہ معائنہ کاروں کی واپسی ان کی اولین ترجیح ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button