یورپاہم خبریں

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نیا تجارتی اقدام: میکسیکو اور یورپی یونین سے درآمدات پر 30 فیصد ٹیرف کا نفاذ، عالمی تجارتی کشیدگی میں اضافہ

امریکی صنعتوں کو "غیرمنصفانہ عالمی مقابلے" سے بچانے کے لیے یہ اقدام ضروری ہو چکا ہے۔

مدثر احمد-امریکا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر عالمی تجارتی نظام میں ہلچل مچاتے ہوئے میکسیکو اور یورپی یونین سے درآمد کی جانے والی مصنوعات پر 30 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ نیا ٹیرف یکم اگست 2025 سے نافذ العمل ہوگا اور اس سے امریکا کی عالمی تجارتی پالیسی میں ایک اور سخت موڑ متوقع ہے۔

صدر ٹرمپ نے یہ اعلان ہفتے کے روز اپنی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر جاری کیے گئے ایک علیحدہ پیغام میں کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ امریکی صنعتوں کو "غیرمنصفانہ عالمی مقابلے” سے بچانے کے لیے یہ اقدام ضروری ہو چکا ہے۔


مذاکرات ناکام، عبوری معاہدے کی امید بھی معدوم

یورپی یونین کے ساتھ کئی ہفتوں تک جاری رہنے والے مذاکرات جامع تجارتی معاہدے پر اختتام پذیر نہ ہو سکے، جس کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے یہ یکطرفہ اقدام اٹھایا۔ یورپی یونین کے 27 رکنی بلاک نے ابتدائی طور پر صنعتی مصنوعات پر زیرو ٹیرف کے تصور کے ساتھ امریکا سے ایک متوازن معاہدے کی امید لگائی تھی، تاہم مذاکرات میں پیش رفت نہ ہونے کے باعث اب عبوری معاہدہ بھی مشکل دکھائی دیتا ہے۔

یورپی یونین کے اندر بھی اس فیصلے پر اختلافات نمایاں ہو گئے ہیں۔ جرمنی جیسے صنعتی دیو نے فوری معاہدے کی حمایت کی، تاکہ اپنی صنعت کو امریکی منڈی میں تحفظ مل سکے، جبکہ فرانس اور دیگر ممالک نے واشنگٹن کی "یکطرفہ شرائط” کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔


نئی پالیسی کے وسیع تر اثرات: ایشیا اور لاطینی امریکا بھی زد میں

یہ ٹیرف صرف یورپی یونین اور میکسیکو تک محدود نہیں رہے۔ رواں ہفتے کے اوائل میں صدر ٹرمپ نے جاپان، جنوبی کوریا، کینیڈا اور برازیل کے لیے بھی نئی درآمدی رکاوٹوں کا اعلان کیا۔ اس کے علاوہ تانبے (Copper) پر 50 فیصد ٹیرف بھی عائد کیا گیا، جسے ماہرین ایک ’’جارحانہ اقتصادی ہتھیار‘‘ قرار دے رہے ہیں۔


ٹرمپ کی تجارتی پالیسی کا رخ: ’’امریکہ فرسٹ‘‘ کا نیا ورژن؟

ڈونلڈ ٹرمپ، جو اپنی دوسری مدت صدارت میں داخل ہو چکے ہیں، ایک بار پھر اپنی "امریکہ فرسٹ” پالیسی کی طرف گامزن ہیں۔ ان کے تازہ احکامات نے نہ صرف عالمی منڈیوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے بلکہ خود امریکا کے اتحادی ممالک میں بھی غیر یقینی صورتحال پیدا کر دی ہے۔

امریکی محکمہ خزانہ کے مطابق ٹرمپ کی نئی تجارتی پالیسیوں کے تحت امریکی کسٹمز ڈیوٹی کی آمدنی 100 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار ٹرمپ حکومت کی اس سوچ کو ظاہر کرتے ہیں کہ ٹیرف نہ صرف تجارتی ہتھیار بلکہ محصولی آمدنی کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں۔


ماہرین کی رائے: ’’عالمی تجارتی جنگ کی طرف واپسی‘‘؟

بین الاقوامی تجارتی ماہرین نے ٹرمپ کے حالیہ فیصلے کو "عالمی تجارتی جنگ کے تسلسل” سے تعبیر کیا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے معاشی ماہر پروفیسر ڈینیئل مارکس کا کہنا ہے:

"یہ فیصلہ ایک ایسے وقت پر آیا ہے جب دنیا کو اقتصادی تعاون اور اتحاد کی شدید ضرورت ہے۔ یہ اقدامات عالمی اعتماد کو کمزور اور تجارتی نظام کو مزید غیر مستحکم کریں گے۔”

دوسری جانب، امریکی کاروباری حلقے بھی پریشان ہیں۔ کئی امپورٹرز اور مینوفیکچررز نے خبردار کیا ہے کہ ٹیرف کے نتیجے میں مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا، جس سے مہنگائی اور سپلائی چین میں رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں۔


یورپی یونین کی ممکنہ جوابی کارروائی

یورپی یونین کے حکام نے اشارہ دیا ہے کہ وہ اس یکطرفہ فیصلے کے خلاف جوابی اقدامات پر غور کر رہے ہیں۔ برسلز میں ہونے والے حالیہ اجلاس میں تجویز دی گئی ہے کہ امریکی مصنوعات پر بھی ٹیرف عائد کیے جائیں، جن میں ٹیکنالوجی، زرعی مصنوعات اور گاڑیاں شامل ہیں۔

ایک اعلیٰ یورپی سفارتکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا:

"ہم مذاکرات کے حق میں ہیں، مگر یہ مذاکرات برابری کی سطح پر ہونے چاہئیں۔ اگر امریکا یکطرفہ فیصلے جاری رکھتا ہے، تو ہمیں اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہوگا۔”


آگے کیا ہوگا؟

ٹرمپ کی نئی تجارتی پالیسی نے ایک بار پھر دنیا کو اس سوال کا سامنا کر دیا ہے: کیا عالمی اقتصادی نظام سیاسی فیصلوں کی نذر ہو رہا ہے؟ تجزیہ کاروں کے مطابق، اگر یہ ٹیرف برقرار رہے، تو آنے والے مہینوں میں عالمی تجارتی عدم توازن مزید بڑھے گا، جس سے صارفین، سرمایہ کاروں، اور حکومتوں کو یکساں طور پر نقصان ہوگا۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کی جانب سے بھی ردعمل متوقع ہے، جو ان پالیسیوں کو عالمی تجارتی اصولوں کے منافی قرار دے سکتے ہیں۔


صدر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی کا یہ تازہ قدم صرف معیشت نہیں، بلکہ سفارت کاری، سیاسی اتحاد، اور عالمی طاقتوں کے درمیان توازن پر بھی گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔ یہ دیکھنا اب باقی ہے کہ دنیا اس ’’نئے معاشی تنازعے‘‘ کا کس طرح جواب دیتی ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button