
انور رٹول: ایک آم، ایک تاریخ، ایک سفارتی پُل — جو مٹھاس سے تلخیوں کو مٹا رہا ہے
پاکستان پہنچ کر انہوں نے اسے ملتان کی زرخیز زمین میں لگایا، اور پھر اپنے والد کے نام پر اس کا نام رکھا: "انور رٹول"
خصوصی رپورٹر
آم صرف پھل نہیں، جذبوں، یادوں، ہجرتوں اور دو قوموں کی مشترکہ تہذیب کی خوشبو رکھتے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک نام ہے ’’انور رٹول‘‘ — جو آج دنیا بھر میں پاکستان کی ’’مینگو ڈپلومیسی‘‘ کا پرچم بردار ہے، لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس کا تعلق دراصل بھارت کے مغربی اتر پردیش کے گاؤں ’’رتول‘‘ سے جڑا ہے۔
یہ آم صرف ذائقے کی بات نہیں، ایک تہذیبی، تاریخی اور جذباتی ورثہ بھی ہے۔ یہ داستان ایک درخت کی ہجرت کی ہے، جس کی جڑیں رتول کی زمین میں تھیں اور جس نے پاکستان کی مٹی میں پھل دیے، ایسے شیریں کہ وہ دنیا بھر کے ایوانوں تک خوشبو بکھیرتے چلے گئے۔
رتول سے پاکستان تک: ایک درخت کی ہجرت
1947 میں جب برصغیر تقسیم ہوا، لاکھوں لوگ اپنے گھروں سے ہجرت پر مجبور ہوئے۔ ان میں سے ایک خاندان کا چشم و چراغ تھا انوارالحق، جنہوں نے اپنا وطن تو چھوڑا، مگر اپنے ساتھ رتول آم کا ایک نایاب پودا ضرور لے آئے۔ پاکستان پہنچ کر انہوں نے اسے ملتان کی زرخیز زمین میں لگایا، اور پھر اپنے والد کے نام پر اس کا نام رکھا: "انور رٹول”۔
یہ ایک ایسا اقدام تھا جو بعد میں پاکستان کی زرعی تاریخ، ثقافت اور سفارت کاری کا لازمی حصہ بن گیا۔
آم اور وعدے: راحت ابرار کی کہانی
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق پبلک ریلیشنز آفیسر راحت ابرار بتاتے ہیں، "میرے تایا انوار الحق ہجرت کر گئے، اور جانے سے پہلے دو چیزیں ساتھ لے گئے: ایک رتول آم کا پودا، اور دوسرا وعدہ کہ ان کے بھائی اپنے بیٹے کا نام ان کے نام پر رکھیں گے۔”
یوں آم کی مٹھاس کے ساتھ ایک خاندانی وعدہ بھی پاکستان کی مٹی میں رچ بس گیا، جس نے راحت ابرار کو ان کا نام دیا، اور انوار رٹول کو اس کی شناخت۔
سفارت کاری میں مٹھاس: جنرل ضیاء الحق اور اندرا گاندھی
1981 میں پاکستانی صدر جنرل ضیاء الحق نے بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو انور رٹول کا ایک کریٹ تحفے میں بھیجا۔ آموں کے ذائقے اور خوشبو سے متاثر ہو کر اندرا گاندھی نے ذاتی طور پر خط لکھ کر آم کی کوالٹی، مہک اور ذائقے کی تعریف کی۔
یہ محض ایک تحفہ نہیں تھا، بلکہ ایک غیر رسمی سفارتی پیغام تھا:
"پاکستان اور بھارت مختلف ضرور ہیں، مگر ساتھ چل سکتے ہیں۔”
اسی لمحے شاید بھارت کے رتول گاؤں کے باسیوں کو یہ ادراک ہوا کہ ان کی زمین سے نکلنے والا ایک درخت آج سفارتی تعلقات کا غیر رسمی سفیر بن چکا ہے۔
آج کا انور رٹول: دنیا بھر میں خوشبو
آج انور رٹول نہ صرف پنجاب بلکہ سندھ کے باغات میں بھی چمکتا ہے۔ پاکستان ہر سال تقریباً 1.8 ملین ٹن آم پیدا کرتا ہے اور ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان (TDAP) کے مطابق، پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا آم پیدا کرنے والا ملک ہے۔
انور رٹول اب وسط ایشیا، خلیج، یورپ، امریکا، کینیڈا تک پہنچ چکا ہے۔ پاکستان پوسٹ نے اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے یادگاری ڈاک ٹکٹ پر بھی جگہ دی۔
آم، محبت اور سرحدیں
آنے والے مہینے میں بھارت اور پاکستان اپنی 78ویں یومِ آزادی منائیں گے۔ ایسے میں انور رٹول ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کچھ چیزیں — چاہے وہ آم ہوں یا جذبے — سرحدوں کو پار کر کے بھی دلوں کو جوڑ سکتی ہیں۔
یہ صرف ایک آم نہیں، یہ ایک کہانی ہے ہجرت کی، پیار کی، خاندانی وعدوں کی اور اس تہذیب کی جسے کوئی لکیر نہیں بانٹ سکتی۔
اختتامیہ: جب مٹھاس تلخی سے جیت جاتی ہے
انوار رٹول صرف پھل نہیں، ایک دستاویزِ وقت ہے — جو یہ بتاتا ہے کہ قومیں چاہے بٹ جائیں، یادیں، مہک اور مٹھاس کبھی تقسیم نہیں ہوتیں۔ شاید اسی لیے آج بھی جب انور رٹول کا ذائقہ زبان پر آتا ہے، دل میں ایک تاریخ، ایک زمین اور ایک وعدہ بھی مہکنے لگتا ہے۔
پاکستان زندہ باد — مٹھاس کے ساتھ۔
بھارت کا رتول اور پاکستان کا انور رٹول — ایک ہی درخت کی دو شاخیں۔