کاروباراہم خبریں

پاکستان کے سرکاری اداروں کو 6 ماہ میں 343 ارب روپے کا نقصان، مجموعی خسارہ 5.9 کھرب روپے سے تجاوز کر گیا

مالی بدانتظامی، ساختی خامیاں اور سبسڈی پر انحصار معاشی بحران کی شدت میں اضافہ کر رہے ہیں

سید عاطف ندیم-پاکستان، وائس آف جرمنی کے ساتھ

پاکستان کے خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں (State-Owned Enterprises – SOEs) نے مالی سال 2025 کی پہلی ششماہی (جولائی تا دسمبر 2024) کے دوران 343 ارب روپے کا نقصان کیا، جس کے نتیجے میں ان اداروں کے مجموعی مالی نقصانات کا حجم 5.893 کھرب روپے تک جا پہنچا ہے۔ یہ انکشافات فنانس ڈویژن کی جاری کردہ تازہ ترین ششماہی رپورٹ میں سامنے آئے ہیں، جو ملک کے معاشی نظم و نسق میں موجود سنگین خامیوں اور اصلاحات کی اشد ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔


سب سے زیادہ نقصان: نیشنل ہائی ویز اتھارٹی سرفہرست

مالیاتی رپورٹ کے مطابق، نیشنل ہائی ویز اتھارٹی (NHA) نے محض چھ ماہ میں 153.3 ارب روپے کا بھاری نقصان کیا، جس کے بعد اس ادارے کا مجموعی خسارہ 1,953.4 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف اسٹریٹجک انفراسٹرکچر کی ناقص مالی منصوبہ بندی کو ظاہر کرتی ہے بلکہ حکومت کے ترقیاتی وژن پر بھی سوالیہ نشان کھڑے کرتی ہے۔


پاور سیکٹر: بدترین مالی کارکردگی اور سبسڈی پر انحصار

پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیاں (DISCOs) بھی شدید خسارے کی لپیٹ میں ہیں۔

  • کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (QESCO) نے 58.1 ارب روپے

  • سکھر الیکٹرک پاور کمپنی (SEPCO) نے 29.6 ارب روپے

  • پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (PESCO) نے 19.7 ارب روپے کا نقصان کیا۔

یہ تمام ادارے بجلی کی ترسیل میں 20 فیصد سے زائد کے تکنیکی اور تجارتی نقصانات کا شکار ہیں، جن میں چوری، بلنگ کی خرابی، اور ناقص انفراسٹرکچر نمایاں عوامل ہیں۔

DISCOs نے مجموعی طور پر چھ ماہ میں 283.7 ارب روپے کا بنیادی آپریشنل خسارہ ظاہر کیا۔ یہاں تک کہ وہ ادارے بھی جن کا EBIT (Earnings Before Interest and Taxes) ابتدائی طور پر مثبت تھا — جیسے:

  • ملتان (MEPCO): EBIT +8.4 ارب → نقصان -35.17 ارب

  • فیصل آباد (FESCO): EBIT +52 ارب → نقصان -13.12 ارب

  • گوجرانوالہ (GEPCO): EBIT +20.9 ارب → نقصان -7.32 ارب

سبسڈی کی ایڈجسٹمنٹ کے بعد یہ ادارے بھی خسارے میں چلے گئے، جو سبسڈی کے غیر پائیدار ماڈل اور مالیاتی بندوبست کی خرابی کو ظاہر کرتا ہے۔


دیگر اہم سرکاری اداروں کے نقصانات

  • پاکستان ریلوے: 26.5 ارب روپے (مجموعی خسارہ 6.7 ارب روپے)

  • پاکستان اسٹیل ملز: 15.6 ارب روپے (مجموعی خسارہ 255.8 ارب روپے)

  • پی ٹی سی ایل: 7.2 ارب روپے (مجموعی خسارہ 43.6 ارب روپے)

  • پاکستان پوسٹ: 6.3 ارب روپے (مجموعی خسارہ 93.1 ارب روپے)

  • یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن: 4.1 ارب روپے (مجموعی خسارہ 15.5 ارب روپے)

یہ تمام ادارے آپریشنل صلاحیت، انسانی وسائل، اور حکمت عملی کی سطح پر سنجیدہ مسائل کا شکار ہیں۔


بجلی پیدا کرنے والے ادارے بھی خسارے میں

GENCOs I-IV (سرکاری پاور جنریشن کمپنیاں) نے مجموعی طور پر 8.3 ارب روپے کا نقصان کیا:

  • GENCO-II (گڈو): 3.8 ارب

  • GENCO-III (مظفرگڑھ): 3.1 ارب

  • GENCO-I (جامشورو): 1.3 ارب

نیلم جہلم ہائیڈرو پاور کمپنی نے 2.3 ارب روپے کا نقصان ظاہر کیا، جس سے اس کا مجموعی خسارہ 58.2 ارب روپے ہو چکا ہے۔


مالی بدانتظامی اور نظامی خرابی

رپورٹ کے مطابق، سرکاری اداروں کے نقصانات کا مسلسل بڑھنا نظامی مسائل کا غماز ہے، جن میں شامل ہیں:

  • مالی شفافیت کا فقدان

  • ناقص گورننس اسٹرکچر

  • کرپشن اور سیاسی مداخلت

  • سبسڈی کے غلط استعمال

  • کارکردگی پر مبنی احتساب کا فقدان

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ رحجان جاری رہا تو صرف پاور سیکٹر ہی سالانہ 600 ارب روپے سے زائد کا نقصان ملک کی معیشت پر مسلط کرے گا۔


حکومت کے لیے چیلنج اور اصلاحات کا مطالبہ

معاشی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ اگر سرکاری اداروں کی کارکردگی اور شفافیت میں بنیادی اصلاحات نہ کی گئیں، تو یہ خسارے نہ صرف مالیاتی خسارے کو مزید گہرا کریں گے بلکہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں (IMF، World Bank) سے مذاکرات میں بھی رکاوٹ پیدا کریں گے۔

حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ:

  • فوری طور پر کارکردگی پر مبنی آڈٹ سسٹم متعارف کرائے

  • ڈسکوز اور دیگر اداروں کی نجکاری یا نجی شراکت داری کے ماڈلز پر سنجیدگی سے غور کرے

  • بلنگ اور ریکوری نظام کو ڈیجیٹلائز کرے

  • سبسڈی کو بہتر ٹارگٹ کرے تاکہ صرف مستحق افراد کو فائدہ پہنچے


خسارے کا تسلسل ناقابلِ برداشت

پاکستان کی معیشت اس وقت شدید دباؤ میں ہے۔ 6 ماہ کے دوران 343 ارب روپے کے نقصانات اس حقیقت کی غمازی کرتے ہیں کہ صرف بجٹ، سبسڈی یا قرض سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ جب تک اندرونی اصلاحات، گورننس کی بہتری، اور شفافیت کو ترجیح نہیں دی جائے گی، پاکستان کے سرکاری ادارے خسارے کا دائرہ وسیع کرتے رہیں گے — اور بالآخر یہ بوجھ عوام کو برداشت کرنا پڑے گا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button