
وائس آف جرمنی عالمی تجزیاتی رپورٹ
بین الاقوامی معاہدوں کو سیاسی ہتھیار بنانے کی بھارتی کوششیں اب اُسی پر الٹنے لگی ہیں۔ پاکستان کے خلاف آبی جنگ کا خواب دیکھنے والی مودی سرکار آج خود پانی کی عدم دستیابی، قدرتی خطرات اور چین کے آبی دباؤ کا شکار ہو چکی ہے۔ ایک طرف بھارت نے سندھ طاس معاہدے کو بارہا چیلنج کیا، تو دوسری جانب چین نے بھارت کے لیے ایسے خطرات کھڑے کر دیے ہیں جو صرف ماحولیاتی نہیں بلکہ اسٹریٹیجک بھی ہیں۔
سندھ طاس معاہدہ: بھارتی سیاست کی آبی مہم جوئی
بھارت کئی سالوں سے سندھ طاس معاہدے کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ مودی حکومت کی جانب سے بارہا یہ بیانات دیے گئے کہ پاکستان کا پانی "روک لیا جائے گا”۔ یہ دھمکیاں نہ صرف بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی تھیں بلکہ اس خطے میں آبی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈالنے کے مترادف تھیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کی کسی بھی کوشش کا نہ صرف قانونی جواز نہیں بلکہ یہ اقدام بھارت کے لیے سب سے بڑی اسٹریٹیجک غلطی ثابت ہو سکتا ہے۔ کیونکہ جس آبی بحران کا وہ خواب پاکستان کے لیے دیکھ رہا تھا، وہ اب اس کی اپنی دہلیز پر دستک دے رہا ہے۔
چین کا آبی دباؤ: نئی دہلی کے لیے نئی آزمائش
بھارت کے شمال مشرقی خطے، خصوصاً اروناچل پردیش اور آسام، اس وقت شدید ماحولیاتی اور آبی خطرات سے دوچار ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ چین کی جانب سے تعمیر کیے جانے والے میگا ڈیمز ہیں۔
چین دریائے یارلنگ زنگبو (Brahmaputra کا منبع) پر 60 گیگاواٹ سے زائد گنجائش کے میگا ڈیمز تعمیر کر رہا ہے، جو صرف بھارت کے پانی کے بہاؤ کو متاثر نہیں کریں گے بلکہ شدید موسمی تبدیلیوں کی صورت میں تباہ کن سیلابوں کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔
آسام کے وزیرِ اعلیٰ اور بھارتی ماہرین کی چشم کشا رائے
آسام کے وزیرِ اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما نے حال ہی میں بیان دیا کہ:
"بھارت کا اصل آبی تنازع پاکستان سے نہیں، چین سے ہے۔ چین نہ صرف کسی باقاعدہ آبی معاہدے کا پابند نہیں بلکہ وہ صرف سیلابی موسم میں ہی محدود ڈیٹا فراہم کرتا ہے، وہ بھی جب نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔”
اس بیان کے بعد بھارت کے اندر سے بھی مودی حکومت کی آبی حکمتِ عملی پر شدید سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں معروف بھارتی دفاعی تجزیہ کار اُتم سنہا نے بھی سندھ طاس معاہدے پر پاکستان کے مؤقف کی حمایت کی ہے اور بھارت کو آئندہ کسی بھی اقدام میں قانونی و اخلاقی حدود کا خیال رکھنے کی تلقین کی ہے۔
چین کی آبی برتری: بھارت کے لیے سفارتی و ماحولیاتی خطرہ
چین کی جانب سے دریاؤں پر کنٹرول حاصل کرنا نہ صرف ہائیڈرو پاور کے لیے ضروری ہے، بلکہ اسے ایک سفارتی اور دفاعی ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ چین کی جانب سے بنائے جا رہے بڑے ڈیمز کی بدولت بھارت کے شمال مشرقی علاقے نہ صرف ماحولیاتی تباہی کا شکار ہو سکتے ہیں بلکہ کسی بھی کشیدہ صورت حال میں چین ان ڈیمز کے ذریعے بھارت پر پانی کا دباؤ بھی ڈال سکتا ہے۔
سندھ طاس معاہدہ اور خطے کا مستقبل
پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960ء میں ہونے والا سندھ طاس معاہدہ ایک تاریخی معاہدہ ہے جو عالمی بینک کی نگرانی میں طے پایا تھا۔ اس معاہدے کے تحت تین مغربی دریا (سندھ، جہلم، چناب) پاکستان کو جبکہ تین مشرقی دریا بھارت کو دیے گئے۔
پاکستان نے ہمیشہ اس معاہدے پر عملدرآمد کو ترجیح دی، جبکہ بھارت کی جانب سے کئی مرتبہ اس میں مداخلت کی کوشش کی گئی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر بھارت اس معاہدے کو منسوخ یا معطل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ عالمی سطح پر اپنے امیج، قانونی ساکھ اور ماحولیاتی قیادت کو شدید نقصان پہنچائے گا۔
نتیجہ: بومرینگ اثر – آبی ہتھیار خود بھارت پر لوٹ آیا
آبی تنازعات کو سیاسی اسلحہ بنانے والی مودی حکومت آج خود چین کی آبی بالادستی کے سامنے بے بس نظر آ رہی ہے۔ پاکستان کے پانی روکنے کی دھمکیاں دینے والے اب خود اپنی حفاظت کے لیے عالمی برادری کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں حقیقت نے سیاسی نعرے بازی کو شکست دے دی ہے۔
خلاصہ:
بھارت کے لیے وقت آ گیا ہے کہ وہ آبی معاملات کو تصادم کے بجائے تعاون اور اعتماد کے راستے پر لے جائے۔ پاکستان جیسے ہمسائے کے ساتھ تصادم کی راہ اختیار کرنے کی بجائے چین جیسے غیر معاہداتی ملک کے خلاف متحد حکمت عملی ہی خطے کے پانی کو محفوظ بنانے کا حل ہے۔