مشرق وسطیٰ

ایران امریکہ کے ساتھ جوہری مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار، رکھی یہ شرط، کیا ٹرمپ مان جائیں گے 

ایران نے جوہری مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے امریکہ کے سامنے ایک شرط رکھی ہے۔

تہران: ایران کے وزیر خارجہ نے ہفتے کے روز کہا کہ ان کا ملک امریکہ کے ساتھ جوہری مذاکرات کی بحالی کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ تاہم ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے بات چیت دوبارہ شروع کرنے سے قبل امریکہ سے ایک ضمانت مانگی ہے۔

واضح رہے ایران پر اسرائیل اور امریکہ نے جوہری ہتھیار بنانے کا الزام لگاتے ہوئے حملہ کر دیا تھا جس میں ایران کی جوہری تنصیبات کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ اسرائیلی اور امریکی حملوں کا جواب دیتے ہوئے ایران نے بھی اپنی میزائل طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اسرائیل میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی۔۔یہی نہیں اپنی جوہری تنصیبات پر حملے کے بعد ایران نے قطر میں موجود امریکی ایئربیس کو بھی نشانہ بنایا تھا۔۔ ایرانی حملے کے بعد امریکی صدر کی جانب سے ایران-اسرائیل میں جنگ بندی معاہدہ کرایا گیا۔

اب امریکہ کی جانب سے ایران پر جوہری مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کا زبردست دباؤ ہے جس کے بعد ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ وہ بات چیت کے لیے تیار ہیں اگر امریکہ اس بات کی یقین دہانی کرائے کہ ایران پر اب مزید حملے نہیں کیے جائیں گے۔

وزیر خارجہ عباس عراقچی نے تہران میں مقیم غیر ملکی سفارت کاروں سے خطاب میں کہا کہ ایران اپنے جوہری پروگرام پر بات چیت کے لیے ہمیشہ تیار رہا ہے اور مستقبل میں بھی تیار رہے گا، لیکن یقین دہانی کرائی جائے کہ بات چیت کی بحالی کی صورت میں یہ رجحان جنگ کی طرف نہیں جائے گا۔

ایران کے جوہری اور فوجی مقامات پر 12 روزہ اسرائیلی بمباری اور 22 جون کو امریکی حملے کا حوالہ دیتے ہوئے، عراقچی نے کہا کہ اگر امریکہ اور دیگر ایران کے ساتھ بات چیت دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں، سب سے پہلے، اس بات کی پختہ ضمانت ہونی چاہیے کہ اس طرح کے اقدامات کا اعادہ نہیں کیا جائے گا۔ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے نے اسے مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔

حملوں کے بعد، ایران نے اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے ساتھ تعاون معطل کر دیا ہے، جس کی وجہ سے معائنہ کاروں کی روانگی ہو چکی ہے۔

عراقچی نے کہا کہ ایرانی قانون کے تحت، ملک ایران کے مفادات کی بنیاد پر ایجنسی کی تعاون کی درخواست کا جواب دے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایجنسی کی طرف سے کوئی بھی معائنہ ایران کے سیکیورٹی خدشات کے ساتھ ساتھ معائنہ کاروں کی حفاظت کی بنیاد پر کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ حملہ آور جوہری مقامات پر تابکار اجزاء کے پھیلاؤ اور گولہ بارود کے پھٹنے کا خطرہ سنگین ہے۔

انہوں نے اپنی سرزمین پر یورینیم کی افزودگی جاری رکھنے کی ضرورت پر ایران کے موقف کو بھی دہرایا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اصرار کیا ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔

اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے کارروائی اس لیے کی کیونکہ تہران جوہری ہتھیار بنانے کے کافی قریب تھا۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی نے اندازہ لگایا تھا کہ ایران کے پاس آخری بار 2003 میں جوہری ہتھیاروں کا ایک منظم پروگرام تھا، حالانکہ تہران 60 فیصد تک یورینیم کی افزودگی کر رہا تھا ، ہتھیاروں کے درجے کی سطح 90 فیصد سے ایک مختصر، تکنیکی قدم دور ہے۔

ایرانی صدر مسعود پیزشکیان نے پیر کو شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں کہا کہ امریکی فضائی حملوں نے ان کے ملک کی جوہری تنصیبات کو اس قدر بری طرح نقصان پہنچایا کہ ایرانی حکام تباہی کا جائزہ لینے کے لیے ابھی تک ان تک رسائی حاصل نہیں کر سکے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button