
ایران اور یورپ کے درمیان جوہری تناؤ میں شدت: ’سنیپ بیک میکانزم‘ کی دھمکی پر تہران کا سخت ردعمل، جرمنی کو سفارتی محاذ پر چیلنج
جرمنی اور دیگر یورپی ممالک کی جانب سے "سنیپ بیک" کی دھمکی، اور ایران کا شدید ردعمل اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں
تہران / برلن / نیویارک – ایران اور یورپی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے (JCPOA) پر جاری کشیدگی ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے، جب جرمنی نے 2015 کے جوہری معاہدے میں شامل ’سنیپ بیک میکانزم‘ کو فعال کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ایران نے اس اقدام کو سیاسی حربہ اور غیر قانونی دباؤ قرار دیتے ہوئے سخت الفاظ میں مسترد کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ تہران مناسب اور مؤثر جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
سنیپ بیک میکانزم کیا ہے؟
سنیپ بیک میکانزم 2015 میں طے پانے والے جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (JCPOA) کا ایک اہم حصہ ہے، جو ایران پر دوبارہ بین الاقوامی پابندیاں عائد کرنے کا قانونی راستہ فراہم کرتا ہے، اگر یہ ثابت ہو جائے کہ تہران معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اس میکانزم کے تحت کسی بھی فریق کو سلامتی کونسل میں شکایت درج کروانے کی اجازت ہوتی ہے، اور اگر کسی متفقہ فیصلے پر نہ پہنچا جائے تو 30 دن بعد پابندیاں ازخود بحال ہو جاتی ہیں۔
ایرانی ردعمل: "سیاسی استحصال، نہ قانونی جواز”
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے پیر کے روز اپنی پریس کانفرنس میں جرمنی کی دھمکی کو سیاسی چال قرار دیا اور کہا کہ "یہ اقدام ایران پر دباؤ ڈالنے کی ایک ناکام کوشش ہے، جس کا کوئی قانونی یا اخلاقی جواز نہیں۔” ان کا کہنا تھا کہ سنیپ بیک میکانزم کا سہارا لینا اس وقت مضحکہ خیز ہو چکا ہے، جب ایران کی جوہری تنصیبات خود حملوں اور دھمکیوں کا نشانہ بن رہی ہیں۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ایران اب بھی جوہری معاہدے کا فریق ہے اور اس نے صرف ان شقوں سے انحراف کیا ہے جو معاہدے کے تحت اسے خلاف ورزیوں کے ردعمل میں کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ "ہم نے اپنی ذمہ داریاں کم کی ہیں، ختم نہیں کیں، اور یہ ہمارا معاہدے کے اندر رہتے ہوئے جائز حق ہے۔”
یورپی ممالک پر "دوہرا معیار” اور "ذمہ داریوں سے فرار” کا الزام
بقائی نے جرمنی سمیت یورپی فریقین پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "یورپ خود جوہری معاہدے میں اپنی بنیادی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے اور اب وہ ایران پر الزام لگا رہے ہیں۔” انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جرمنی نے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ (NPT) کے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے ساتھ بھی غیر منصفانہ رویہ اختیار کیا جا رہا ہے۔
ایران کا مذاکراتی موقف: "سفارت کاری دکھاوا نہیں”
ترجمان نے ایران کی مذاکراتی پالیسی پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ تہران ہمیشہ سنجیدہ اور نیک نیتی سے مذاکرات کا حامی رہا ہے اور سفارت کاری کو دھوکہ دہی یا دکھاوے کا ذریعہ نہیں سمجھتا۔ تاہم، امریکہ کے ساتھ جوہری مذاکرات کے کسی نئے دور کی کوئی تاریخ یا مقام فی الحال طے نہیں پایا ہے۔
جرمنی کا مؤقف اور سلامتی کونسل کی ممکنہ کارروائی
جرمن چانسلر فریڈرک میرٹس نے گزشتہ روز اعلان کیا کہ جرمنی، فرانس اور برطانیہ – جو 2015 کے معاہدے کے یورپی دستخط کنندہ ہیں – منگل 15 جولائی کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک باضابطہ درخواست پیش کریں گے، تاکہ ایران کے خلاف سنیپ بیک میکانزم فعال کیا جا سکے۔ میرٹس کے مطابق یہ اقدام ایران کی جوہری سرگرمیوں میں اضافے اور معاہدے کی ممکنہ خلاف ورزیوں کے پیش نظر ضروری ہے۔
تناظر: معاہدے سے امریکی دستبرداری اور ایرانی ردعمل
یاد رہے کہ 2018 میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر JCPOA سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا اور ایران پر سخت امریکی پابندیاں دوبارہ عائد کر دی تھیں۔ اس اقدام کے بعد ایران نے مرحلہ وار معاہدے کی مختلف شقوں پر عمل درآمد معطل کرنا شروع کر دیا، جس میں یورینیئم کی افزودگی کی سطح اور مقدار، سینٹری فیوجز کی تعداد اور معائنہ کاری تک رسائی شامل ہیں۔
ماہرین کی رائے: عالمی کشیدگی میں اضافے کا خدشہ
بین الاقوامی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر سنیپ بیک میکانزم کو فعال کر دیا جاتا ہے تو یہ اقدام نہ صرف ایران-یورپ تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا کرے گا بلکہ ایران کی جانب سے ممکنہ طور پر JCPOA سے مکمل دستبرداری اور یورینیئم افزودگی میں تیزی کا خطرہ بھی بڑھا سکتا ہے۔ خطے میں اس سے پہلے ہی عدم استحکام کی فضا ہے، اور کسی بھی نئے تنازع کے اثرات عالمی سطح پر محسوس کیے جائیں گے۔
جرمنی اور دیگر یورپی ممالک کی جانب سے "سنیپ بیک” کی دھمکی، اور ایران کا شدید ردعمل اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ 2015 کا جوہری معاہدہ ایک بار پھر بحران کی دہلیز پر ہے۔ جہاں ایک جانب سفارت کاری کی راہ کھلی رکھنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں، وہیں عملی طور پر ایک سخت سفارتی محاذ آرائی جاری ہے۔ آئندہ دنوں میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کارروائی اور ایران کا ردعمل، خطے کے مستقبل اور عالمی سفارتکاری کی سمت کا تعین کرے گا۔