
بی بی سی کی غزہ کے بچوں پر دستاویزی رپورٹ پر تنازع: معلوماتی غلطیوں اور ادارتی اصولوں کی خلاف ورزی کا اعتراف
بچہ جس کی کہانی بیان کی گئی ہے، اس کا والد حماس کا سینئر عہدیدار ہے
لندن / غزہ — برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کی جانب سے غزہ کے جنگ زدہ علاقے میں بچوں کی زندگی پر بنائی گئی ایک دستاویزی رپورٹ شدید تنقید اور داخلی جائزے کا سامنا کر رہی ہے، جس میں ادارے نے تسلیم کیا ہے کہ رپورٹ میں ادارتی رہنما اصولوں کی سنگین خلاف ورزی ہوئی ہے اور معلومات کی صحت و درستگی متاثر ہوئی ہے۔
یہ تنازع اس وقت پیدا ہوا جب بی بی سی نے فروری 2025 میں اپنی ویب سائٹ پر جاری کی گئی رپورٹ ’غزہ کے جنگی زون میں بچوں کی زندگی‘ کو چند دن بعد ہی ہٹا دیا تھا۔ ادارے نے پانچ دن بعد اسے دوبارہ نشر تو کیا، لیکن اس کے ساتھ اعتراف کیا کہ رپورٹ میں اہم معلومات کو غلط انداز میں یا ادھورا پیش کیا گیا۔
13 سالہ لڑکے کی کہانی، پس منظر میں پوشیدہ حقیقت
رپورٹ میں ایک 13 سالہ فلسطینی بچے کی کہانی بیان کی گئی تھی، جو غزہ میں اسرائیلی بمباری کے دوران زندگی گزارنے کی جدوجہد کر رہا تھا۔ رپورٹ نے اس بچے کو عام شہری کے طور پر پیش کیا، تاہم بعد میں انکشاف ہوا کہ وہ حماس کے ایک ذمہ دار کا بیٹا ہے، جس کا ذکر رپورٹ میں نہیں کیا گیا تھا۔
بی بی سی کے مطابق، یہ تفصیل ناظرین اور قارئین کو فراہم نہیں کی گئی، جس کی وجہ سے رپورٹ کی غیرجانبداری اور معلوماتی درستگی پر سوالات اٹھے۔
ادارہ جاتی جائزہ: "ادارتی اصولوں کی خلاف ورزی، لیکن تعصب نہیں”
بی بی سی کی جانب سے اندرونی جائزہ رپورٹ مرتب کی گئی، جس میں اس بات کی تصدیق ہوئی کہ رپورٹ ادارتی گائیڈلائنز پر پوری نہیں اتری۔ بی بی سی کے ڈائریکٹر برائے ادارتی شکایات، پیٹر جانسٹان نے کہا:
"یہ ضرور بتایا جانا چاہیے تھا کہ بچہ جس کی کہانی بیان کی گئی ہے، اس کا والد حماس کا سینئر عہدیدار ہے۔ اس معلومات کو پوشیدہ رکھنا ادارتی شفافیت کے منافی تھا۔”
تاہم انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ رپورٹ میں کسی سیاسی تعصب یا جانبداری کے شواہد نہیں ملے، اور نہ ہی رپورٹ تیار کرنے والوں کے مفادات کا اس کہانی سے کوئی تعلق ظاہر ہوا۔
بی بی سی کی انتظامی وضاحت
بی بی سی نے واضح کیا کہ دستاویزی فلم ایک بیرونی پروڈکشن ہاؤس ‘ہویو فلمز’ کے اشتراک سے تیار کی گئی تھی۔ ادارے کے مطابق، رپورٹ نشر ہونے سے قبل مکمل معلومات ادارتی ٹیم کے ساتھ شیئر نہیں کی گئی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ حقائق کی جانچ مکمل طور پر ممکن نہ ہو سکی۔
بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیوی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
"یہ واقعہ ادارے کے لیے ایک اہم سبق ہے۔ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اس قسم کی سنگین غلطیاں دوبارہ نہ ہوں۔ ہم دونوں اطراف سے کارروائی کریں گے — ایک جانب متعلقہ افراد کا احتساب کیا جائے گا، دوسری جانب ادارتی تربیت اور چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو مضبوط کیا جائے گا۔”
غزہ کوریج پر مستقل دباؤ
بی بی سی کی غزہ میں جاری اسرائیلی حملوں پر کوریج پہلے سے ہی مختلف حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنتی رہی ہے۔ جہاں اسرائیل نواز حلقے ادارے پر جانبداری کا الزام لگاتے ہیں، وہیں فلسطینی حامی حلقے ادارے پر غزہ کے مظلوم شہریوں کی آواز کو کمزور کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیلی کارروائیوں میں 58 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں بچوں اور خواتین کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ یہی اعداد و شمار دنیا بھر میں رائے عامہ کو متاثر کر رہے ہیں اور بی بی سی جیسے عالمی اداروں پر رپورٹنگ کے دوران زیادہ احتیاط اور شفافیت کا تقاضا بڑھ رہا ہے۔
بی بی سی کی جانب سے غزہ کے 13 سالہ بچے پر بنائی گئی رپورٹ میں معلومات کی درستگی میں کوتاہی اور ادارتی اصولوں کی خلاف ورزی ایک صحافتی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی تھی، جس کا ادارے نے برملا اعتراف کیا ہے۔ اگرچہ تعصب یا جانبداری کے الزامات کو رد کر دیا گیا ہے، لیکن اس واقعے نے ایک بار پھر اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ جنگی علاقوں میں رپورٹنگ کرتے وقت معلومات کی صداقت اور ادارتی شفافیت نہایت اہم ہوتی ہے۔
بی بی سی کی یہ غلطی نہ صرف اس کی ساکھ کے لیے چیلنج بنی، بلکہ مستقبل میں صحافتی ذمہ داریوں کے تقاضوں کو مزید سخت کرنے کی ضرورت کا احساس بھی دلاتی ہے۔