پاکستان پریس ریلیزاہم خبریںتازہ ترین

گوجرانوالہ: احمدی شہری کی بریانی تقسیم کرنے پر درج مقدمے میں ضمانت کی درخواست مسترد

منور احمد ورک کے وکلاء نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کا مؤکل ایک پرامن شہری ہے جو کسی بھی قسم کی مذہبی یا سیاسی سرگرمی میں ملوث نہیں رہا

گوجرانوالہ (نمائندہ خصوصی): تھانہ سیٹلائیٹ ٹاؤن گوجرانوالہ میں ایک احمدی شہری منور احمد ورک کے خلاف صرف بریانی پکا کر تقسیم کرنے کے الزام میں درج ایف آئی آر کے مقدمے کی سماعت آج سول جج / جوڈیشل مجسٹریٹ سدرہ گل نواز کی عدالت میں ہوئی، جہاں عدالت نے ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی۔
منور احمد ورک پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے علاقے میں بریانی تیار کر کے ہم وطنوں میں تقسیم کی، جسے پولیس نے "مذہبی حساسیت” کے خلاف قدم قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ ایف آئی آر میں ان پر تعزیرات پاکستان کی مختلف دفعات کے تحت کارروائی کی گئی ہے۔
واقعے کی تفصیلات
منور احمد ورک کے وکلاء نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کا مؤکل ایک پرامن شہری ہے جو کسی بھی قسم کی مذہبی یا سیاسی سرگرمی میں ملوث نہیں رہا۔ انہوں نے صرف ایک انسانی جذبے کے تحت کھانے کی تقسیم کی، جسے جرم قرار دینا انصاف کے اصولوں کے منافی ہے۔ تاہم پراسیکیوشن نے مؤقف اختیار کیا کہ اس عمل سے عوامی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔

Photo

منور احمد ورک پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے مذہبی تہوار کے موقع پر یا کسی مخصوص دن پر، محض انسانیت کے ناطے، بریانی تیار کر کے مقامی افراد میں تقسیم کی۔ یہ عمل، جو عام حالات میں ایک فلاحی یا خیرسگالی کا اقدام سمجھا جاتا ہے، ان کے مذہبی پس منظر کی بنیاد پر ایک قابلِ تعزیر جرم بنا دیا گیا۔
پولیس کی ایف آئی آر میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعات شامل کی گئی ہیں، جن میں مذہبی منافرت اور اشتعال انگیزی سے متعلق شقیں شامل ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنان اور سماجی تنظیمیں اس ایف آئی آر کو جانبدار اور امتیازی قرار دے رہی ہیں۔
بریانی بانٹنا یا جرم؟
اس کیس نے نہ صرف مقامی بلکہ قومی سطح پر بھی توجہ حاصل کی ہے، اور سوشل میڈیا پر عوام کی بڑی تعداد اس واقعے پر افسوس کا اظہار کر رہی ہے۔ بہت سے شہریوں کا کہنا ہے کہ ایک شہری کا اپنے ہم وطنوں کو کھانا کھلانا نہ تو اشتعال انگیزی ہے اور نہ ہی کوئی مذہبی جرم، بلکہ یہ انسان دوستی اور خیر سگالی کا مظہر ہونا چاہیے تھا۔
سوشل ایکٹیوسٹ اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ:”پاکستان میں تمام شہریوں کو آئین کے تحت برابر حقوق حاصل ہیں۔ اگر کوئی اقلیت سے تعلق رکھنے والا فرد فلاحی کام کرے تو اسے سراہا جانا چاہیے، نہ کہ مجرم بنایا جائے۔”
عدالتی فیصلہ اور آئندہ کا لائحہ عمل
عدالت نے تفتیشی رپورٹ اور پراسیکیوشن کے دلائل سننے کے بعد ضمانت کی درخواست مسترد کر دی۔ منور احمد ورک کے وکیل نے کہا کہ وہ اس فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کریں گے۔ ان کے مطابق یہ ایک بے بنیاد مقدمہ ہے جو محض مذہبی تعصب پر مبنی ہے۔
مذہبی ہم آہنگی کے لیے لمحہ فکریہ
یہ واقعہ ایک بار پھر اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ آیا ہمارے معاشرے میں اقلیتوں کے لیے مساوی مواقع اور آزادی حاصل ہے؟ کیا کسی شخص کا کھانا تقسیم کرنا واقعی اتنا بڑا جرم ہے کہ اسے جیل بھیج دیا جائے؟
یہ واقعہ پاکستانی معاشرے میں موجود مذہبی حساسیت، اقلیتوں کے خلاف تعصب، اور قانون کے ممکنہ غلط استعمال کی ایک مثال کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اس سے یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ:”کیا ہم ایک ایسا معاشرہ چاہتے ہیں جہاں رواداری اور محبت کی بجائے نفرت اور تعصب کو فروغ دیا جائے؟”
مقامی سماجی تنظیموں نے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرے اور ایسے مقدمات کے خلاف مؤثر پالیسی اپنائے۔
قومی اور بین الاقوامی سطح پر تشویش
یہ واقعہ نہ صرف انسانی حقوق کے کارکنان بلکہ عام شہریوں کے لیے بھی باعثِ تشویش بن گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ:”اگر ایک احمدی شہری ہم وطنوں کو کھانا کھلائے تو کیا یہ واقعی جرم ہے؟ کیا انسان دوستی اب مذہبی تفریق سے مشروط ہو چکی ہے؟”
پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق سے متعلق کام کرنے والی کئی تنظیموں نے اس فیصلے کو مذہبی امتیاز اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
انسانی حقوق کی پامالی یا قانون کا نفاذ؟
یہ کیس ایک بڑا سوال اٹھاتا ہے: کیا پاکستان میں ایک اقلیتی فرد کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ معاشرے میں خیرسگالی کا مظاہرہ کرے؟ یا پھر اقلیتوں کی ہر مثبت کاوش کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے گا؟
قانونی ماہرین کے مطابق آئینِ پاکستان تمام شہریوں کو مذہب، ذات، رنگ، نسل سے بالاتر ہو کر مساوی حقوق فراہم کرتا ہے۔ تاہم، زمینی حقائق اس کے برعکس دکھائی دے رہے ہیں، خاص طور پر جب کسی احمدی شہری کا معاملہ ہو۔
آئندہ لائحہ عمل
منور احمد ورک کے اہلِ خانہ نے انصاف کے حصول کے لیے اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ:”ہمارے والد نے صرف انسانیت کے ناطے کھانا تقسیم کیا، وہ نہ اشتعال انگیز ہیں نہ ہی کسی مذہبی ایجنڈے پر عمل پیرا۔ انہیں انصاف دیا جائے۔”

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button