پاکستاناہم خبریں

آج بھی گونجتا ہے سوال: اگر آگرہ کامیاب ہو جاتا؟

جب مشرف اور واجپائی امن کے دروازے تک پہنچے، مگر ایڈوانی اور نادیدہ قوتوں نے دروازہ بند کر دیا

خصوصی تجزیاتی رپورٹ – اردو ڈیسک
جولائی 2001 کی تپتی ہوئی گرمی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک ایسی پیش رفت ہونے جا رہی تھی، جسے اگر کامیابی ملتی تو آج برصغیر کی تاریخ مختلف ہوتی۔ آگرہ سمٹ، جس کا آغاز امید سے ہوا، اختتام مایوسی پر ہوا۔ 14 سے 16 جولائی تک جاری رہنے والی اس کانفرنس میں پاکستان کے فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف اور بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے درمیان ملاقاتوں کا مرکزی محور مسئلہ کشمیر اور دوطرفہ تعلقات کی بحالی تھا۔ لیکن اندرونِ بھارتی سیاست کی پیچیدگیوں اور شدت پسند عناصر کے دباؤ نے اس تاریخی موقع کو ضائع کر دیا۔


مشرف کی دہلی آمد: آموں سے آغاز، جذبات سے استقبال

14 جولائی 2001 کو صدر پرویز مشرف اپنی اہلیہ صبہا مشرف کے ہمراہ دہلی پہنچے تو جذباتی مناظر نے میڈیا اور عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی۔ دہلی کے دریا گنج میں واقع نہر والی حویلی، جہاں مشرف کا بچپن گزرا، کو خصوصی طور پر سجایا گیا تھا۔ 90 سالہ کشمیرہ بی بی، جنہیں مشرف اپنی "ماں” کہا کرتے تھے، سے ان کی ملاقات میڈیا کا موضوع بنی۔

صدر مشرف نے میزبان بھارتی قیادت کو تحفے میں پاکستان کے مشہور چونسا آم بھی پیش کیے، جن کی خوشبو اور ذائقے نے بھارتی حکام اور میڈیا کو خوش کر دیا۔ اس گرمجوش آغاز نے یہ امید پیدا کی کہ شاید دونوں ملکوں کے تعلقات میں برف پگھلنے والی ہے۔


آگرہ سمٹ: بات چیت، مسکراہٹیں اور میڈیا میں مشرف کی مقبولیت

15 جولائی کو مشرف اور واجپائی کی آگرہ میں پہلی باضابطہ ملاقات ہوئی، جو خوشگوار ماحول میں اختتام پذیر ہوئی۔ اسی دن انڈین میڈیا کے ساتھ مشرف کی ملاقات نے انہیں اچانک بھارت کے ٹی وی اسکرینوں کا "ڈارلنگ” بنا دیا۔

ناشتے کی میز پر مشرف کی بھارتی صحافیوں سے براہِ راست اور کھلے انداز میں گفتگو — جس میں انہوں نے مسئلہ کشمیر کو مرکزی حیثیت دینے پر زور دیا — بھارتی میڈیا پر چھا گئی۔ ان کے پراعتماد انداز، شائستگی اور مدلل باتوں نے بھارت کے عوام اور صحافیوں کے دل جیت لیے۔ مگر یہی کامیابی اندرونِ بھارتی سیاست کے لیے ایک خطرہ بن گئی۔


امن کی دہلیز پر رکاوٹ: جب "پانچ منٹ” تین گھنٹے بن گئے

16 جولائی کی رات آگرہ کے ہوٹل امر ولاس میں پاکستانی وفد بے چینی سے مشترکہ اعلامیے کے منتظر تھے، جو انڈین وزیر خارجہ جسونت سنگھ کے مطابق "پانچ منٹ” میں واجپائی کی منظوری کے بعد لایا جانا تھا۔ پاکستانی وزیر خارجہ عبدالستار کے مطابق اعلامیے کے مسودے پر دونوں ممالک کے درمیان اتفاق ہو چکا تھا، لیکن آخری لمحوں میں بھارتی کابینہ کی سیکیورٹی کمیٹی نے رکاوٹ ڈال دی۔

تین گھنٹے انتظار کے بعد، پاکستانی وفد کو آگاہ کیا گیا کہ مشترکہ اعلامیہ ممکن نہیں رہا۔ مشرف کی ممکنہ پریس کانفرنس کو بھی "سکیورٹی وجوہات” کے تحت روک دیا گیا۔ یوں سمٹ کا اختتام اچانک اور غیر متوقع انداز میں ہوا، اور پاکستان کا صدر وطن واپس روانہ ہو گیا — واجپائی سے صرف 45 منٹ کی تنہائی میں ملاقات کے بعد۔


سمٹ کی ناکامی کے پیچھے "نادیدہ قوتیں”

تجزیہ کاروں اور سابق سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ آگرہ سمٹ کی ناکامی کی اصل وجہ بھارتی کابینہ میں موجود سخت گیر عناصر تھے، جن کی قیادت اس وقت کے وزیر داخلہ لال کرشن ایڈوانی کر رہے تھے۔

ایڈوانی، جو وزیراعظم بننے کے خواہاں تھے، آر ایس ایس اور بی جے پی کے شدت پسند حلقوں کو خوش کرنا چاہتے تھے۔ پاکستان کے ساتھ کسی بھی معاہدے کی حمایت ان کے سیاسی عزائم کے خلاف جاتی تھی۔ بعد ازاں، انہوں نے خود بھی تسلیم کیا کہ وہ مشترکہ اعلامیے کے خلاف تھے۔

صحافی نیر زیدی اور خورشید محمود قصوری سمیت کئی مبصرین نے اس بات کی تصدیق کی کہ ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور انند کمار جیسے وزرا نے واجپائی کو اعلامیے سے باز رکھنے کے لیے استعفے کی دھمکیاں تک دیں۔ اس اندرونی کشمکش نے پوری دنیا کے سامنے بھارت کو ایک غیر سنجیدہ اور غیرمستحکم فریق کے طور پر پیش کیا۔


پریس کانفرنس میں مشرف کا اعلان: "مایوس نہیں”

20 جولائی کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جنرل مشرف نے کہا:
"میں آگرہ سے خالی ہاتھ آیا ہوں، لیکن میں امن کے عمل سے مایوس نہیں ہوں۔”
انہوں نے زور دیا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر پاک بھارت تعلقات کی بہتری ممکن نہیں، اور انتہا پسندوں کو نظر انداز کیے بغیر خطے میں پائیدار امن ممکن نہیں۔


واچپائی کی صفائیاں اور ثالثی کا خوف

بھارتی وزیراعظم واجپائی کو اندرونِ ملک شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے بھارتی پارلیمنٹ میں وضاحت دی کہ اگر وہ مشرف سے سخت رویہ اپناتے تو عالمی برادری کو یہ تاثر جاتا کہ بھارت اور پاکستان اپنے مسائل خود حل کرنے سے قاصر ہیں، اور یوں بین الاقوامی ثالثی کا راستہ کھل جاتا — جو بھارت ہمیشہ سے رد کرتا آیا ہے۔


نتیجہ: ضائع ہوتا موقع، باقی رہتی تلخیاں

آگرہ سمٹ ایک ایسا موقع تھا جو جنوبی ایشیا کے دو ایٹمی ملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی کا سنگِ میل بن سکتا تھا۔ مگر داخلی سیاسی مفادات، شدت پسندی، اور امن دشمن ذہنیت نے اسے ناکام بنا دیا۔ اگرچہ پرویز مشرف کے دور میں بعد ازاں واجپائی کی لاہور آمد اور من موہن سنگھ کے دور میں بھی پیش رفت ہوئی، مگر آگرہ جیسا موقع دوبارہ نہ آ سکا۔


آج بھی گونجتا ہے سوال: اگر آگرہ کامیاب ہو جاتا؟

24 سال بعد، آج بھی یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ اگر آگرہ سمٹ کامیاب ہو جاتا، تو کیا کشمیر کے مسئلے کا کوئی سیاسی حل نکل آتا؟ کیا پاکستان اور بھارت کے عوام غربت، نفرت، اور جنگ کے خوف سے نکل کر امن اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے؟

یہ وہ سوال ہے جس کا جواب تاریخ کے صفحات میں کہیں دب کر رہ گیا، مگر وقتاً فوقتاً گونجتا ضرور ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button