پاکستانتازہ ترین

"ہر بارش موسمیاتی تبدیلی نہیں” — ماہرِ موسمیات نورین حیدر کا اہم ماحولیاتی تجزیہ

موسمیاتی تبدیلی ایک طویل المدت اور غیرمعمولی رجحان ہوتا ہے، جو کسی علاقے میں دہائیوں پر محیط مخصوص موسمی پیٹرن کو تبدیل کر دے

اسلام آباد (ماحولیاتی ڈیسک) — حالیہ بارشوں اور اربن فلڈنگ کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ممتاز ماہرِ موسمیات اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے سرگرم نورین حیدر نے کہا ہے کہ پاکستان میں مون سون کی حالیہ بارشیں اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیرمعمولی نہیں تھیں، لہٰذا انہیں فوری طور پر "موسمیاتی تبدیلی” کا نتیجہ قرار دینا سائنسی طور پر درست رویہ نہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ:

"موسمیاتی تبدیلی ایک طویل المدت اور غیرمعمولی رجحان ہوتا ہے، جو کسی علاقے میں دہائیوں پر محیط مخصوص موسمی پیٹرن کو تبدیل کر دے۔ جبکہ پاکستان میں مون سون بارشیں ہمیشہ سے معمول کا حصہ رہی ہیں، اور اس سال بھی ان کی شدت یا مقدار ایسی نہیں کہ اسے غیرمعمولی قرار دیا جائے۔”


شدید گرمی، شدید بارش – مگر جذب کیوں نہیں ہوتی؟

نورین حیدر نے بارش کی شدت اور اس کے اثرات کی سائنسی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ جب درجہ حرارت غیرمعمولی حد تک بڑھتا ہے، تو زمین سے بخارات اٹھنے کا عمل تیز ہو جاتا ہے، جس کے نتیجے میں فضا میں نمی بڑھتی ہے اور پھر بارش کی صورت میں واپس زمین پر آتی ہے۔

"مسئلہ یہ نہیں کہ بارش ہو رہی ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ زمین وہ پانی جذب نہیں کر پا رہی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ شہری علاقوں میں زمین کا کنکریٹ سے ڈھک جانا، ناقص نکاسیِ آب، اور پانی کے قدرتی راستوں کی بندش ہے۔”

انہوں نے سال 2022 کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت بلوچستان میں شدید گرمی کے بعد آنے والی بارشوں نے دریائی بہاؤ میں اضافہ کیا، اور وہ پانی پنجاب تک آ کر تباہی کا سبب بنا۔


اربان فلڈنگ: قدرتی نہیں، انسان کی پیدا کردہ آفت

نورین حیدر کے مطابق پاکستان میں اربن فلڈنگ کا ایک بڑا سبب انسانی مداخلت ہے:

"ہم نے نالوں، ندیوں، اور دریاؤں کے قدرتی بہاؤ میں رکاوٹیں ڈال دی ہیں۔ تعمیرات، پل، تجاوزات، اور ناقص منصوبہ بندی نے قدرت کے نظام کو بگاڑ دیا ہے۔”

انہوں نے راولپنڈی کے نالہ لئی کی مثال دی جہاں حالیہ برسوں میں بننے والے دو پلوں نے پانی کے بہاؤ کو محدود کر دیا، جس کے نتیجے میں بارش کے دوران قریبی آبادیوں کو نقصان پہنچا۔


"بارش سے پہلے نالے خشک، بعد میں خطرناک”

نورین حیدر نے نشاندہی کی کہ:

"اسلام آباد اور راولپنڈی جیسے شہروں میں موجود قدرتی نالے زیادہ تر وقت خشک دکھائی دیتے ہیں، جس سے لوگ انہیں بےکار سمجھ کر وہاں تجاوزات کر لیتے ہیں۔ لیکن جب بارش آتی ہے تو یہی نالے فعال ہو جاتے ہیں اور پانی اپنا قدرتی راستہ نہ پانے کی صورت میں انسانی بستیوں میں داخل ہو جاتا ہے۔”


حل کیا ہے؟ — پانی کو اس کا راستہ لوٹائیں

انہوں نے اس مسئلے کا حل بتاتے ہوئے کہا کہ:

  • قدرتی آبی گزرگاہوں کو قانونی تحفظ دیا جائے

  • نالوں کی صفائی کو یقینی بنایا جائے

  • غیرقانونی تعمیرات پر سختی سے پابندی عائد کی جائے

  • شہری منصوبہ بندی میں قدرتی نکاسی کو مرکزی حیثیت دی جائے

"اگر پانی کو بہنے کا قدرتی راستہ دے دیا جائے، تو چاہے بارش معمول سے کئی گنا زیادہ ہو، وہ تباہی نہیں لائے گی۔”


ڈیمز کا حل محدود، واٹر ہارویسٹنگ مؤثر متبادل

نورین حیدر نے سیلاب سے بچاؤ کے لیے صرف ڈیمز پر انحصار کو ناقص حکمتِ عملی قرار دیا:

"تربیلا اور منگلا جیسے بڑے ڈیم جب بھر جاتے ہیں، تو سپل ویز کھولنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا، اور یوں پانی بہر حال نیچے آتا ہے۔ دریا کا پانی آخرکار سمندر تک پہنچنا ہی چاہیے، ورنہ سمندر کا پانی مزید کھارا ہو کر زمین کے کٹاؤ اور ماحولیاتی خرابی کا سبب بنتا ہے۔”

انہوں نے "واٹر ہارویسٹنگ” یعنی بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے والے چھوٹے تالاب یا ذخائر کی تعمیر کو ایک پائیدار حل قرار دیا:

"یہ طریقہ زمین کی زرخیزی کو بڑھاتا ہے، زمینی پانی کی سطح میں بہتری لاتا ہے، اور خشک سالی و سیلاب جیسے خطرات کو کم کرتا ہے۔”

ہر بارش موسمیاتی تبدیلی نہیں۔ اگر ہم نے اپنا طرزِ زندگی، منصوبہ بندی، اور انتظامی رویہ نہ بدلا، تو عام سی بارش بھی غیر معمولی تباہی بن جائے گی — اور اس کا الزام ہم "کلائمٹ چینج” پر ڈال کر اپنے ہاتھ دھوتے رہیں گے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button