
اداکارہ حمیرا اصغر کی المناک موت: پاکستان میں شہری تنہائی کی خاموش وبا کی عکاس
شہروں کی طرف نقلِ مکانی اور خاندانی نظام میں تبدیلی ایسے افسوسناک واقعات کی بڑی وجہ ہے
جب رواں ماہ کے شروع میں پاکستانی اداکارہ حمیرا اصغر کی مسخ شدہ لاش ان کے کراچی کے اپارٹمنٹ سے ملی تو ان کی وفات کو کم از کم نو ماہ گذر چکے تھے۔
اصل میں لاہور سے تعلق رکھنے والی حمیرا اپنے فنکارہ کیریئر میں ترقی کے لیے کراچی منتقل ہوئیں اور تقریباً سات سال سے تنہا رہائش پذیر تھیں۔
اب حکام کا خیال ہے کہ حمیرہ کی موت اکتوبر 2024 میں قدرتی یا حادثاتی وجوہ کی بنا پر ہوئی تھی اور کسی کو اس کا احساس نہیں ہوا۔
اس واقعے سے پاکستان میں شہری تنہائی کی خاموش اموات کے بارے میں لوگوں میں پریشان کن بات چیت شروع ہو گئی ہے۔ یہ خاص طور پر کراچی جیسے بڑے شہروں میں ہو رہا ہے جہاں تیز رفتار وسعت پذیری، خاندانی ڈھانچے میں تبدیلی اور کمزور ہوتے ہوئے رشتے اور روابط کی وجہ سے لوگوں کے زندگی گذارنے – اور دنیا سے چلے جانے -کے انداز ایک نئی شکل اختیار کر رہے ہیں۔
کراچی پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل سید اسد رضا نے کہا کہ موت سے قبل حمیرا کی شدید مالی پریشانی کے آثار ظاہر ہوئے تھے۔
رضا نےبتایا، "وہ اپنا کیرئیر بحال کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی تھیں جبکہ خاندان اور دوستوں سے سماجی طور پر رابطہ منقطع تھا۔ ہمیں ایسے شواہد بھی ملے جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اپنی موت سے کچھ دیر پہلے انہوں نے مالی مدد کے لیے اپنے کئی دوستوں سے رابطہ کیا تھا۔”
گذشتہ ماہ معروف سینیئر اداکارہ عائشہ خان کی لاش بھی موت کے تقریباً ایک ہفتے بعد ان کے کراچی اپارٹمنٹ سے ملی تھی۔ ایدھی فاؤنڈیشن جیسے فلاحی گروپوں نے کہا ہے کہ ایسے واقعات بڑھ رہے ہیں حالانکہ اس سلسلے میں جامع قومی اعداد وشمار کی کمی ہے۔
اکثر لاوارث لاشیں برآمد کرنے والے خیراتی ادارے کے چیئرمین فیصل ایدھی نے کہا، "ایسے واقعات میں یقیناً اضافہ ہوا ہے۔ اب ہمیں انفرادی لاشیں ملنے لگی ہیں جن کی تعداد بڑھ رہی ہے۔”
شہر کی طرف نقلِ مکانی، گھٹتا ہوا سماجی تحفظ
عالمی بینک کے اندازوں کے مطابق اب تقریباً 44 فیصد پاکستانی شہری علاقوں میں رہتے ہیں جو 2010 میں 35 فیصد تھے۔
سابق وائس چانسلر سندھ یونیورسٹی اور ماہرِ عمرانیات ڈاکٹر فتح محمد برفت نے تنہائی کی اموات میں اضافے کو گاؤں میں قائم سماجی تحفظ کے روایتی نظام کے خاتمے سے جوڑتے ہوئے کہا، "شاید 50 سال پہلے 70 فیصد لوگ دیہات میں رہتے تھے، اب تقریباً 70 فیصد یا اس سے زیادہ لوگ بڑے شہروں میں ہیں۔ تو یہ نہ صرف دیہی زندگی سے شہری زندگی میں تبدیلی ہے بلکہ ہماری پوری سماجی زندگی میں تبدیلی آ گئی ہے۔”
درحقیقت دماغی صحت کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ تنہائی صرف ایک سماجی مسئلہ نہیں ہے بلکہ صحت کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔
کراچی میں مقیم ماہرِ نفسیات پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال آفریدی نے عالمی ادارۂ صحت کے نتائج کا حوالہ دیا جن کے مطابق 2024 میں تمام دنیا میں 870,000 سے زیادہ افراد شدید تنہائی سے منسلک حالات کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔
انہوں نے کہا، "درحقیقت تنہائی ذیابیطس یا ہائی بلڈ پریشر جیسے حالات سے زیادہ تکلیف دہ اور نقصان دہ پائی گئی ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ اپنے دوستوں، خاندان اور سماجی حلقوں سے منقطع ہو جاتے ہیں ان میں جسمانی، نفسیاتی اور سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ کئی بیماریاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔”
"سب سے بڑا نقصان”
حمیرا کی موت کے بعد کئی لوگ پوچھ رہے ہیں: انڈسٹری نے خود ہی کیوں نہ خبر لی؟
لاہور سے 2020 میں کراچی منتقل ہونے والی ماڈل اور اداکارہ زینب رضا نے تنہا رہنے کو خودمختار زندگی کا "سب سے بڑا نقصان اور منفی پہلو” قرار دیا۔
انہوں نے کہا، "یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر ایک کے پاس خاندان یا دوست ہوں جو ان کی خبر لیں۔ آپ کو ایسے لوگ مل سکتے ہیں جنہیں مدد اور معاونت کی ضرورت ہو اور آپ ایک دوسرے کو سہارا دے سکتے ہیں۔”
حمیرا کی موت کے بعد کراچی میں اداکاروں کے ایک گروپ نے کنیکٹیویٹی 101 کے نام سے ایک واٹس ایپ سپورٹ گروپ بنایا ہے جہاں ممبران روزانہ سادہ طریقے سے ایک دوسرے کو چیک کرتے ہیں۔
زینب رضا نے کہا، "شاید اگر حمیرا کے ارد گرد ایسے گروپس اور معاون نظام موجود ہوتے تو حالات بہت بہتر ہوتے۔ شاید وہ آج ہمارے ساتھ ہوتیں۔”
ماہرِ عمرانیات برفت نے کہا، "جو خواتین خودمختار لیکن مالی طور پر خوشحال تھیں، انہیں حمیرا کی طرح سماجی تحفظ کے مسائل کا سامنا نہیں تھا جو اپنا کرایہ ادا کرنے سے قاصر تھیں، جن کے فلیٹ کی بجلی منقطع تھی اور والدین بھی ان کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ اس لیے اب ہم جس دنیا میں داخل ہو چکے ہیں، وہاں اس قسم کے واقعات ہوتے رہیں گے۔”