یورپ

’جرمن پارلیمان سائبر حملوں کی زد میں‘

''ہم متعدد ہیکر حملے ریکارڈ کر رہے ہیں۔ بنڈس ٹاگ ایک مقبول ہدف ہے… ہمیں سائبر حملوں کے خلاف تحفظ کی اپنی صلاحیت کو بڑھانا ہوگا۔‘‘

افسر اعوان ڈی پی اے کے ساتھ

جرمن پارلیمان کا ایوان زیریں بنڈس ٹاگ مسلسل سائبر حملوں کی زد میں ہے، اور اسے ہیکر حملوں کے خلاف زیادہ تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات جرمن پارلیمان کی صدر یولیا کلؤکنر نے کہی ہے۔

جرمن پارلیمان کی صدر کا عہدہ بہت سے ممالک میں اسپیکر کے برابر ہے۔

جرمن پارلیمان کی صدر یولیا یولیا کلؤکنر
جرمن پارلیمان کی صدر یولیا یولیا کلؤکنر کے مطابق، ”ہم متعدد ہیکر حملے ریکارڈ کر رہے ہیں۔ بنڈس ٹاگ ایک مقبول ہدف ہے… ہمیں سائبر حملوں کے خلاف تحفظ کی اپنی صلاحیت کو بڑھانا ہوگا۔‘‘

مئی 2015ء میں، بنڈس ٹاگ پر اب تک کے سب سے بڑے سائبر حملے کا انکشاف ہوا تھا۔ بنڈس ٹاگ کے ارکان کی ایک بڑی تعداد کے دفاتر میں موجود کمپیوٹرز اسپائی ویئر سے متاثر ہوئے تھے جن میں اس وقت کی چانسلر انگیلا میرکل کے کمپیوٹرز بھی شامل تھے۔ اس حملے کے بعد پورے بنڈس ٹاگ کے آئی ٹی نظام کو تبدیل کرنا پڑا۔

پانچ سال بعد سرکاری استغاثہ کی جانب سے سامنے آنے والے نئے شواہد کی بنیاد پر میرکل نے کہا تھا کہ اس حملے میں روس کے ملوث ہونے کے ‘ٹھوس شواہد‘ موجود ہیں۔ اسی کے تناظر میں یورپی یونین نے روس پر پابندیاں عائد کیں۔

جرمن حکومت نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ 2023ء میں سوشل ڈیموکریٹس (ایس پی ڈی) کے پارٹی ہیڈکوارٹرز میں ای میل اکاؤنٹس پر سائبر حملے کے پیچھے روسی ملٹری انٹیلی جنس یونٹ کا ہاتھ تھا۔

سابق جرمن چانسلر انگیلا میرکل
سرکاری استغاثہ کی جانب سے سامنے آنے والے نئے شواہد کی بنیاد پر میرکل نے کہا تھا کہ اس حملے میں روس کے ملوث ہونے کے ‘ٹھوس شواہد‘ موجود ہیں۔ اسی کے تناظر میں یورپی یونین نے روس پر پابندیاں عائد کیں۔تصویر: ODD ANDERSEN/AFP/Getty Images

اس وقت اولاف شولس چانسلر تھے اور ایس پی ڈی کی زیر قیادت حکومت کے سربراہ تھے۔

ایک سال بعد سی ڈی یو پارٹی ہیڈکوارٹر پر سائبر حملے کے پیچھے ہیکرز کی شناخت ابھی تک نامعلوم ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button