
اسلام آباد/پشاور (نمائندہ خصوصی)
پاکستان میں سینیٹ انتخابات 2025 کا عمل مکمل ہو گیا ہے، جس میں خیبر پختونخوا اور پنجاب سے نمایاں سیاسی چہرے ایوان بالا تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ انتخابی معرکہ کئی حوالوں سے غیر معمولی رہا، خصوصاً خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے روپوش رہنما مراد سعید کا سینیٹر منتخب ہونا، سیاسی حلقوں میں زیر بحث آ گیا ہے۔
خیبر پختونخوا: پی ٹی آئی کا پلڑا بھاری، اپوزیشن نے بھی مؤثر کارکردگی دکھائی
خیبر پختونخوا میں پیر کے روز ہونے والے انتخابات میں پی ٹی آئی نے 6 نشستیں حاصل کیں، جب کہ اپوزیشن اتحاد نے 5 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔
پی ٹی آئی کے کامیاب امیدواروں میں مراد سعید، فیصل جاوید، نورالحق قادری، اعظم سواتی، مرزا آفریدی اور خواتین کی مخصوص نشست پر روبینہ ناز شامل ہیں۔
ادھر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے طلحہ محمود (پیپلز پارٹی)، مولانا عطا الحق اور دلاور خان (جے یو آئی ف)، نیاز احمد (ن لیگ) اور خواتین کی نشست سے روبینہ خالد (پیپلز پارٹی) نے کامیابی حاصل کی۔
پنجاب: ن لیگ کا یکطرفہ مقابلہ، پی ٹی آئی کو صرف 99 ووٹ
پنجاب کی واحد سینیٹ نشست پر ن لیگ کے امیدوار راؤ عبد کریم نے میدان مار لیا۔ انہیں 242 ووٹ ملے جبکہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار صرف 99 ووٹ لے سکے۔
یہ ن لیگ کی صوبے میں حکومتی برتری کا واضح اشارہ تھا، جہاں تحریک انصاف کو سپریم کورٹ کے فیصلوں اور سیاسی تنہائی کے سبب مشکلات کا سامنا ہے۔
مراد سعید: روپوشی میں کامیابی، ایوان بالا تک رسائی
پی ٹی آئی کے سابق وفاقی وزیر مراد سعید نے حیران کن طور پر جنرل نشست سے کامیابی حاصل کی، حالانکہ وہ 9 مئی 2023 کے بعد سے روپوش ہیں اور ان پر ریاستی اداروں کے خلاف تقریر سمیت کئی مقدمات درج ہیں۔
پارٹی ذرائع کے مطابق مراد سعید اس وقت "ملک سے باہر کسی محفوظ مقام” پر ہیں۔ ان کی انتخابی کامیابی نہ صرف قانونی بلکہ سیاسی حلقوں میں بھی بحث کا باعث بن گئی ہے۔
دیگر نمایاں کامیاب سینیٹرز
فیصل جاوید
عمران خان کے قریبی ساتھی فیصل جاوید دوسری بار سینیٹر بننے میں کامیاب ہوئے۔ وہ بھی 9 مئی کے بعد روپوش رہے لیکن ایک برس بعد منظر عام پر آ کر مقدمات کا سامنا کیا۔
اعظم سواتی
سابق وفاقی وزیر اور متنازع بیانات کے باعث گرفتار ہونے والے اعظم سواتی نے ایک بار پھر ایوان بالا تک رسائی حاصل کی۔ یہ ان کا دوسرا دور سینیٹ ہوگا۔
نور الحق قادری
سابق وزیر مذہبی امور نور الحق قادری کا شمار پارٹی کے بااثر مذہبی رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ ان کے خاندان سے کئی افراد ماضی میں بھی سینیٹر رہ چکے ہیں۔
مرزا آفریدی
ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے مرزا آفریدی نے 2018 میں آزاد حیثیت سے کامیابی حاصل کی تھی۔ بعدازاں وہ ن لیگ سے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے۔ ان پر ٹکٹ خریدنے اور وفاداریاں تبدیل کرنے کے الزامات بھی لگے۔ اس کے باوجود وہ پارٹی ٹکٹ کے حصول میں کامیاب رہے۔
روبینہ ناز
خواتین کی نشست سے پی ٹی آئی کی امیدوار روبینہ ناز 89 ووٹ لے کر پہلی بار سینیٹر منتخب ہوئیں۔ وہ پارٹی کی سینیئر ورکر اور خواتین ونگ کی فعال رہنما رہ چکی ہیں۔
اپوزیشن کے مضبوط امیدوار
طلحہ محمود
طلحہ محمود مسلسل تیسری بار سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔ اس بار انہوں نے جے یو آئی ف کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی کا پلیٹ فارم استعمال کیا۔ وہ ماضی میں بھی ایوان بالا میں سرگرم رہ چکے ہیں۔
مولانا عطا الحق
جے یو آئی ف کے صوبائی جنرل سیکریٹری اور مولانا فضل الرحمن کے قریبی ساتھی مولانا عطا الحق پہلی بار سینیٹ پہنچے ہیں۔
نیاز احمد
ن لیگ کے امیدوار نیاز احمد، وفاقی وزیر امیر مقام کے بیٹے ہیں۔ ان کی کامیابی کو پارٹی کی نوجوان قیادت کو آگے لانے کی پالیسی سے جوڑا جا رہا ہے۔
دلاور خان
ٹیکنوکریٹ نشست پر جے یو آئی ف کے دلاور خان کامیاب ہوئے۔ وہ ایک صنعتکار ہیں اور سابقہ دور میں ن لیگ کی حمایت سے بھی سینیٹر رہ چکے ہیں۔
روبینہ خالد
پیپلز پارٹی کی روبینہ خالد دوسری بار سینیٹر منتخب ہوئی ہیں۔ وہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن بھی رہی ہیں، اور پی پی پی کے مضبوط سیاسی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔
تحریک انصاف کے اندر اختلافات
سینیٹ ٹکٹوں کی تقسیم پر تحریک انصاف میں سخت اختلافات دیکھنے میں آئے۔ سینیئر کارکنان کو نظرانداز کرنے پر پشاور پریس کلب کے سامنے مظاہرے ہوئے۔
پارٹی رہنما عائشہ بانو نے آنسوؤں کے ساتھ اپنی دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے کہا:
"میں دل گرفتہ ہو کر ورکرز کی بات مان کر دستبردار ہو رہی ہوں۔”
بعض امیدواروں نے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اور پارٹی قیادت سے مذاکرات کے بعد کاغذات نامزدگی واپس لے لیے۔
تجزیہ: ایوان بالا میں نئی صف بندی
سینیٹ انتخابات کے یہ نتائج مستقبل کی پارلیمانی سیاست کا رخ متعین کر سکتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی مضبوط پوزیشن اور پنجاب میں ن لیگ کی واضح اکثریت مستقبل میں قانون سازی کے حوالے سے سیاسی جوڑ توڑ کا میدان گرم رکھیں گے۔
خاص طور پر مراد سعید جیسے رہنماؤں کا انتخاب، جہاں قانونی سوالات اٹھا رہا ہے، وہیں پی ٹی آئی کے حلقے اسے نظام کے خلاف ایک سیاسی پیغام کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں۔