
ڈھاکہ میں بنگلہ دیش ایئر فورس کا تربیتی طیارہ سکول پر گر کر تباہ، 19 طلبہ جاں بحق – ملک بھر میں قومی سوگ کا اعلان
ڈھاکہ میں بنگلہ دیش ایئر فورس کا تربیتی طیارہ سکول پر گر کر تباہ، 19 طلبہ جاں بحق – ملک بھر میں قومی سوگ کا اعلان
ڈھاکہ (ایجنسیاں + نمائندہ خصوصی)
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں ایک ہولناک فضائی حادثے نے پورے ملک کو سوگوار کر دیا، جب ایئر فورس کا تربیتی طیارہ شمالی ڈھاکہ کے ایک مصروف تعلیمی ادارے پر گر کر تباہ ہو گیا۔ افسوسناک واقعے میں کم از کم 19 افراد جان کی بازی ہار گئے، جن میں اکثریت نوجوان طلبہ کی تھی، جب کہ 50 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ زخمیوں میں بعض کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔
حادثے کے فوری بعد بنگلہ دیش نے منگل 22 جولائی کو قومی سوگ کا اعلان کیا ہے، جب کہ اعلیٰ سطحی تحقیقات کے احکامات بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔
حادثے کی تفصیلات: محض 12 منٹ کی پرواز
بنگلہ دیشی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، یہ حادثہ پیر کو اس وقت پیش آیا جب ایف-7 بی جی آئی تربیتی طیارہ دوپہر 1:06 بجے ڈھاکہ کے فضائی اڈے سے اڑا اور 1:18 بجے اترا کے علاقے دیا باڑی میں مل سٹون سکول اینڈ کالج کے احاطے میں گر کر تباہ ہو گیا۔
عینی شاہدین کے مطابق طیارہ سکول کی کینٹین کے قریب اس وقت گرا، جب طلبہ دوپہر کے کھانے کے وقفے کے دوران باہر موجود تھے۔ دھماکے کی آواز دور دور تک سنائی دی، جبکہ عمارت کا ایک حصہ مکمل طور پر منہدم ہو گیا۔
طلبہ اور والدین کی چیخ و پکار، جائے حادثہ پر قیامت کا منظر
حادثے کے بعد کے مناظر دل دہلا دینے والے تھے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں خوفزدہ طلبہ کو دوڑتے اور چیختے چلاتے دیکھا جا سکتا ہے۔ جائے وقوعہ پر فائر بریگیڈ، ریسکیو ٹیمیں اور فوج فوری طور پر پہنچ گئی، جبکہ بریگیڈیئر جنرل محمد زاہد کمال نے جائے حادثہ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ہلاکتوں میں اضافے کی تصدیق کی۔
پیر کی شام تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد 19 ہو گئی تھی، جب کہ زخمیوں کو ڈھاکہ میڈیکل کالج، یونائیٹڈ ہسپتال، اور کومیلا ملٹری اسپتال منتقل کیا گیا۔ بعض طلبہ جھلسنے کے باعث شدید زخموں میں مبتلا ہیں۔
حکومت کا ردعمل: "ناقابلِ تلافی نقصان ہے”
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے حادثے پر شدید رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
"یہ سانحہ نہ صرف ایئر فورس کا نقصان ہے بلکہ ہمارے ملک کے مستقبل – ہمارے نوجوانوں – کا زخم ہے۔ ہم ہر متاثرہ خاندان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ تحقیقات کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ متاثرہ ادارے، طلبہ، والدین، اساتذہ اور عملے کے لیے نفسیاتی اور مالی امداد فراہم کی جائے گی۔
قومی سطح پر سوگ، تعلیمی ادارے بند
حکومتی ترجمان کے مطابق منگل 22 جولائی کو بنگلہ دیش بھر میں قومی پرچم سرنگوں رہے گا، اور تمام تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔ متاثرہ سکول میں تعزیتی ریفرنس منعقد کیے جائیں گے، جبکہ جاں بحق طلبہ کے آبائی علاقوں میں جنازے سرکاری اعزاز کے ساتھ ادا کیے جائیں گے۔
سوالات جنم لے رہے ہیں: تربیتی طیارہ آبادی پر کیوں؟
سول ایوی ایشن ماہرین اور سکیورٹی تجزیہ کاروں کی جانب سے سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ ایک تربیتی طیارہ اتنے گنجان آباد اور حساس تعلیمی علاقے کے اوپر پرواز کیوں کر رہا تھا؟
ماہرین کے مطابق ایف-7 بی جی آئی جیسے طیارے عام طور پر شہری علاقوں سے دور مخصوص فضائی زونز میں تربیتی مشقیں کرتے ہیں۔ یہ معاملہ ممکنہ تکنیکی خرابی یا پائلٹ کی فوری مجبوری کا بھی ہو سکتا ہے، جس کے باعث طیارہ نزدیکی کھلے علاقے تک نہ پہنچ سکا۔
عینی شاہدین کے بیانات
ایک طالبہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:
"ہم کھانے کے لیے لائن میں لگے تھے کہ اچانک زوردار دھماکہ ہوا، زمین ہلنے لگی اور آگ کے شعلے بلند ہو گئے۔ کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہوا ہے۔”
ایک والد جن کا بیٹا سکول میں موجود تھا، روتے ہوئے بولے:
"جب کال آئی کہ سکول پر جہاز گرا ہے، تو میں ننگے پاؤں بھاگتا ہوا یہاں پہنچا۔ ہر طرف چیخ و پکار تھی۔”
تحقیقات شروع، ابتدائی رپورٹ 48 گھنٹوں میں متوقع
بنگلہ دیش ایئر فورس اور سیول ایوی ایشن اتھارٹی کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے جائے حادثہ کو سیل کر دیا ہے۔ ابتدائی رپورٹ آئندہ 48 گھنٹوں میں پیش کی جائے گی۔
طیارے کا بلیک باکس اور ریکارڈنگ ڈیٹا ریکور کر لیا گیا ہے اور تجزیہ شروع کر دیا گیا ہے۔
بین الاقوامی ردعمل اور اظہارِ تعزیت
حادثے پر کئی ممالک نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان، بھارت، نیپال، ترکی، قطر اور سعودی عرب سمیت متعدد ممالک نے بنگلہ دیشی حکومت اور عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے بھی متاثرین کے لیے ہمدردی کا پیغام جاری کیا گیا ہے۔
دکھ، سوالات اور ذمہ داری کا مطالبہ
ڈھاکہ میں پیش آنے والا یہ سانحہ صرف ایک حادثہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی المیہ ہے جس میں بنگلہ دیش کے معصوم مستقبل کو شدید زخم پہنچا ہے۔ یہ حادثہ جہاں ایک طرف فوجی تربیتی پالیسیوں اور شہری علاقوں میں اڑان بھرنے کے اصولوں پر سوال اٹھاتا ہے، وہیں حکومت اور فوجی اداروں پر بھی دباؤ بڑھا رہا ہے کہ وہ شفاف تحقیقات، ذمہ داری کا تعین اور اصلاحات یقینی بنائیں۔