
پرکاش راج کا آر ایس ایس پر طنز: "انڈونیشیا میں 90 فیصد مسلمان، پھر بھی 11 ہزار مندر
میں نے کبھی وہاں دنگا فساد کے بارے میں نہیں سنا، کیونکہ وہاں آر ایس ایس نہیں ہے
رپورٹ: نمائندہ خصوصی – نئی دہلی بھارت کے معروف فلمی اداکار، ہدایتکار اور سیاستدان پرکاش راج ایک بار پھر اپنے جرات مندانہ بیان کی وجہ سے سرخیوں میں ہیں۔ حالیہ دنوں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پرکاش راج نے بھارت میں مذہبی شدت پسندی اور اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد پر کھل کر اظہارِ خیال کیا۔ انہوں نے انڈونیشیا کی مثال دیتے ہوئے آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) پر سخت تنقید کی اور کہا:
"انڈونیشیا میں مسلمان 90 فیصد ہیں اور ہندو صرف دو فیصد، لیکن وہاں 11 ہزار مندر ہیں۔ میں نے کبھی وہاں دنگا فساد کے بارے میں نہیں سنا، کیونکہ وہاں آر ایس ایس نہیں ہے۔”
یہ بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکا ہے اور مختلف حلقوں میں بحث کا موضوع بن گیا ہے۔
بیان کا سیاق و سباق
پرکاش راج ایک طویل عرصے سے بھارتی سیاست، سماج اور فلمی دنیا میں ایک باشعور اور بے باک آواز کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ کئی مواقع پر ہندوتوا تنظیموں، خاص طور پر آر ایس ایس اور بی جے پی کی پالیسیوں پر تنقید کر چکے ہیں۔
ان کے حالیہ بیان میں انڈونیشیا کو ایک ماڈل کے طور پر پیش کیا گیا، جہاں مذہبی ہم آہنگی کے ساتھ اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے نظر آئے کہ مذہب کا سیاست میں استعمال ہی دراصل تشدد اور نفرت کا بنیادی سبب ہے۔
انڈونیشیا کی مثال کیوں؟
انڈونیشیا دنیا کا سب سے بڑا مسلم اکثریتی ملک ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی 90 فیصد سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود وہاں نہ صرف ہندو مت بلکہ بدھ مت، عیسائیت اور مقامی عقائد کے پیروکار بھی پرامن طور پر اپنے مذہبی فرائض انجام دیتے ہیں۔ بالی جیسے علاقوں میں ہندو اکثریت میں ہیں، جہاں ہزاروں مندر قائم ہیں اور انہیں حکومتی سطح پر تحفظ حاصل ہے۔
پرکاش راج نے اسی بات کو بنیاد بناتے ہوئے کہا کہ اگر ایک مسلم اکثریتی ملک میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے اور وہاں فسادات کا نام و نشان نہیں، تو پھر بھارت جیسے سیکولر ملک میں اقلیتیں خوف اور عدم تحفظ کا شکار کیوں ہیں؟
ذاتی پس منظر
پرکاش راج مذہب سے متعلق سخت گیر نظریات کے خلاف ہمیشہ کھڑے رہے ہیں۔ ان کے والد ہندو تھے، جبکہ والدہ رومن کیتھولک عیسائی تھیں۔ تاہم، پرکاش راج خود کو کسی مذہب سے منسلک نہیں کرتے۔ وہ لادینیت (atheism) یا سیکولرازم کو اپنی ذاتی زندگی میں ترجیح دیتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے، اور ریاست کا کام مذہب سے بالاتر ہو کر سب کو برابر کے حقوق دینا ہے۔
سیاسی اور سماجی ردعمل
ان کے اس بیان پر حسبِ روایت مختلف ردعمل سامنے آئے ہیں۔
بی جے پی اور ہندوتوا نظریات کے حامیوں نے پرکاش راج پر "ملک دشمنی” اور "بھارتی تہذیب کو بدنام کرنے” کے الزامات عائد کیے، جبکہ سوشل میڈیا پر انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔
دوسری جانب، سیکولر سوچ رکھنے والے افراد، سماجی کارکنان، اور اقلیتوں کے حقوق کے علمبرداروں نے پرکاش راج کے بیان کو "حقیقت کی آواز” قرار دیا ہے۔ معروف سماجی کارکن ہرش مندر نے کہا،
"پرکاش راج کا بیان ہمیں آئین کی طرف واپس لے جاتا ہے، جو مذہب، ذات، جنس اور زبان سے بالاتر ہو کر ہر شہری کو مساوی حیثیت دیتا ہے۔”
خلاصہ
پرکاش راج کا انڈونیشیا کی مثال دے کر آر ایس ایس پر طنز کرنا صرف ایک بیان نہیں بلکہ بھارت کے موجودہ سیاسی و سماجی منظرنامے پر ایک گہرا سوال ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مذہب انسانوں کے درمیان تفریق پیدا کرنے کے بجائے، ہم آہنگی کا ذریعہ ہونا چاہیے۔ ان کے بیانات ہمیں اس بحث کی طرف لے جاتے ہیں کہ کیا بھارت واقعی ایک سیکولر ریاست کے اصولوں پر کاربند ہے یا مذہب سیاست پر حاوی ہوتا جا رہا ہے؟
ادارتی نوٹ: پرکاش راج کی رائے ان کی ذاتی سوچ کی عکاس ہے، اور اس رپورٹ کا مقصد صرف صحافتی ذمہ داری کے تحت حقائق کو عوام تک پہنچانا ہے۔