
راستے پُر خار بھی ہوتے ہیں ؟…..ناصف اعوان
یہ پہلو بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ جب تک سیاسی استحکام نہیں آتا کامل یکسوئی حاصل نہیں ہو گی جس سے ”کچھ کرنے“ میں خلل پیدا ہوتا ہے
زندگی کو ایک پل چین نہیں کہ مہنگائی و بے روزگاری بے قابو دکھائی دیتی ہے ‘ بجلی گیس اور تیل کی قیمتیں بھی مسلسل بڑھ رہی ہیں حالات سیاسی بھی نہیں سدھر رہے جس سے ہر شہری سوائے امیروں کے سوچوں میں گُم ہے وہ ہر لمحہ گویا انگاروں پے لوٹ رہا ہے نیچے سے اوپر تک جس کے جی میں جو آتا ہے کر رہا ہے
اس طرح تو کوئی بھی سماج ترقی نہیں کر سکتا مگر جب ہم انسانی تاریخ میں رونما ہونے والے واقعات کو سامنے رکھتے ہیں تو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ وقت تھمتا نہیں رُکتا نہیں ارتقائی عمل کو آگےبڑھنا ہوتا ہے وہ جامد نہیں رہ سکتا لہذا آج ہم جس صورت حال و مسائل سے دوچار ہیں تو کل نہیں ہوں گے کیونکہ یہ بدلنے کی طرف ہی جارہے ہیں اگرچہ لگ ایسا رہا ہے کہ حالتِ موجود اسی طرح رہے گی مگر نہیں یہ سب بدلے گا کہ جو پہلے تھا وہ آہستہ آہستہ تبدیل ہو رہا ہے۔ صدائیں فضاؤں میں بلند ہو رہی ہیں ۔بنیادی حقوق کا تقاضا کیا جا رہا ہے جن کے پاس اختیارات ہیں وہ انہیں سننے پر مجبور ہونے لگے ہیں کچھ کرنے بھی لگے ہیں مگر یہ پہلو بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ جب تک سیاسی استحکام نہیں آتا کامل یکسوئی حاصل نہیں ہو گی جس سے ”کچھ کرنے“ میں خلل پیدا ہوتا ہے لہذا سب سے پہلے اس مسلہ کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا اس کے حل کیے بغیر آبشاروں اور جھرنوں کی باتیں نہیں کی جا سکتیں چین کی بانسری نہیں بجائی جا سکتی لہذا کرتا دھرتاؤں کو چاہیے کہ وہ جب بہتر ماحول اور خوشحالی کی خواہش رکھتے ہیں تو روٹھے ہوؤں کو منائیں سیاسی استحکام لانے کی کوشش کریں سب کو ساتھ لے کر منزل کی طرف قدم بڑھائیں۔ تنہا سفر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ راستے پُر خار بھی ہوتے ہیں اور ٹیڑھے بھی ۔ وطن عزیز میں یہ جو ہاہاکار مچی ہوئی ہے اسے ختم کرکے ایک پلیٹ فارم پر کھڑا کیا جائے محبت سے پیار سے اور گفتگو سے تب ہی کوئی نئی سویرطلوع ہو گی لہذا اہل اختیار کواپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے ان کے مقابل جو فریق ہے اسے بھی اپنے رویے اور طرز عمل پر غور کرنا ہو گا کہ جو ان کے ساتھ ہمیشہ چلنے کو کہہ رہے تھے وہ پیچھے رہ گئے۔اہل دانش کہتے ہیں کہ جب عقل کا دامن چھوڑ دیا جائے تو حماقت باقی رہ جاتی ہے اور حماقت کبھی بھی راہ کی دشواری دُور نہیں کرتی لہذا فریقین صبر وتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپس میں دست و گریباں ہونے کے بجائے بغل گیر ہو جائیں۔ عوام کی یہی آرزو ہےوہ مضطرب نہیں رہنا چاہتے۔
وہ جب مغرب و یورپی ممالک کو دیکھتے ہیں کہ وہاں کے لوگ ہنسی خوشی رہ رہے ہیں پُر آسائش زندگی بسر کر رہے ہیں قانون و آئین کے مطابق اپنے معاملات دیکھتے ہیں ۔ ان کے خوبصورت شہروں قصبوں اور دیہاتوں کو دیکھتے ہیں تو انہیں لگتا ہے کہ یہ کسی اور سیارے کے ہیں ۔ان کی آنکھیں صاف ستھری اور دل فریب سڑکیں دیکھ کر چاہتی ہیں کہ ان کے ملک میں بھی ویسا ہی ہو ۔احترام آدمیت کی مثالیں قائم ہوں۔ایسا ناممکنات میں سے نہیں اس کے لئے فقط توجہ ہمدردی اور خلوص چاہیے مگر افسوس ہمارے ہاں یہ ناپید ہیں۔ اہل اقتدار کو اقتدار سے لگاؤ ہے عوامی مسائل سے نہیں کہ انہیں ستتر برس کے بعد ہی ختم کرنے کی طرف آیا جائے مگر یہ بھی ہے کہ یہاں تو حکومتیں ہی مشروط بنتی ہیں لہذا وہ ڈانواں ڈول رہتی ہیں ایسے میں کیا ہو سکتا ہے کیسے خواہشوں کے چراغ روشن ہو سکتے ہیں انصاف بھی کیسے مل سکتا ہے اور لوگوں کو غربت کی لکیر سے اوپر لایا جا سکتا ہے ۔بس یہی کچھ اب تک ہوتا آیا ہے ۔اس وقت بھی جو ہو رہا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے ایک دوسرے کو ”تھلے“ لگانے رُلانے اور تڑپانے کی باتیں سننے کو مل رہی ہیں جبکہ عوام دہائی دے رہے ہیں کہ انہیں مہنگائی قبضہ گروپوں سینہ زوروں تھانوں پٹوارخانوں کی زیادتیوں سے نجات دلائی جائے مگر اس حوالے سے گونگلوؤں سے مٹی جھاڑی جا رہی ہے تاکہ لوگ مشتعل نہ ہوں اور یہ سمجھیں کہ اقتدار والوں نے ان کی سُن لی ہے لہذا وہ آئندہ بھی کچھ کریں گے مگر ہوتا اتنا ہی ہےکہ جس سے سانسیں بحال رہیں اور جسموں میں حرکت رہے لہذا عوام کی بہت بڑی تعداد یہ سب دیکھتے ہوئے نظام کی تبدیلی کا مطالبہ کرنے لگی ہے اسے حکمران طبقوں پر اعتبار نہیں رہا کہ وہ ان کو روشن مستقبل دے سکیں گے یہی وجہ ہے کہ وہ احتجاج کے راستے پر آتے جارہے ہیں جنہیں روکنے کے لئے مختلف طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں مگر لگ رہا ہے کہ اب تیر کمان سے نکل چکا ہے کیونکہ وہ سب کو آزما چکے ہیں بھگتا چکے ہیں مگر کسی نے بھی ان کے زخموں پر مرہم نہیں رکھا بلکہ نمک ہی چھڑکا ہے ۔ہمیشہ انہوں نے یہی بتایا کہ ملک کا خزانہ خالی ہے وہ نازک دور سے گزر رہا ہے مگر یہ نازک دور ختم ہونے میں ہی نہیں آرہا خزانہ بھرنے میں ہی نہیں آرہا اس کی وجہ صاف ہے کہ ہر ایک حکمران نے اپنی جیبیں بھریں اور بھاری قرضے لے کر ملک کا نظام چلایا غیر پیداواری منصوبوں پر خرچ کیے گئے قرضوں سے کچھ حاصل نہ ہونے سے واپسی مشکل سے مشکل ہوتی گئی آج ان پر سود اتنا بڑھ چکا ہے کہ جنہیں اتارنا ناممکن نظر آتا ہے مگر اس کے لئے شہ دماغوں نے ٹیکسوں میں اضافہ کر دیا ہے اس کے باوجود پرنالہ وہیں کا وہیں ہے۔ کہا مگر یہی جا رہا ہے کہ بہتری آرہی ہے سطحی سا ایک خوش نمامنظر ابھر بھی رہا ہے ۔سیانے کہتے ہیں کہ ”اُس سونے نوں کیہ کرنا جہیڑا کناں نوں وڈ وڈ کھاوے “ اُس دلکش منظر کے ابھرنے کا کیا کرنا جو بعد میں افسردگی میں بدل جائے ۔ جب تک ملک کے اندر صنعتوں کا جال نہیں بچھا دیا جاتا تب تک حقیقی خوشحالی اور خوشی نہیں آسکتی بے روزگاری غربت بھی ختم نہیں ہو سکتی تعلیم کو مفت نہیں کیا جاتا تو جہالت بھی کم نہیں ہو سکتی مگر اہل اقتدار اسے شاید کم نہیں ہونے دینا چاہتےتاکہ غریب عوام کچھ نہ سمجھیں اور یونہی ”گُھمن گھیریاں“ کھاتے رہیں مگر جہالت کو اب ختم کرنے کا سوشل میڈیا نے بیڑا اٹھا لیا ہے وہ تہہ در تہہ چھپی دانش و دانائی کو سامنے لارہا ہے لہذا کہا جا سکتا ہے کہ وہ دور گیا جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے۔حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ بنیادی انسانی حقوق دینے کا آغاز کر دیں ۔انصاف عام اور مفت کر دیں ذرائع پیداوار ہنگامی بنیادوں پر تخلیق کریں۔ غیر پیداواری منصوبے بنانا کم کر دیں۔ بدعنوانی پر قابو پا کر اس پیسے کو لوگوں کی فلاح وبہبود پر خرچ کریں ذہنوں کو ایسے ہی تبدیل کیا جا سکتا ہے اور مقبولیت حاصل کی جا سکتی ہے !