پاکستاناہم خبریںتازہ ترین

کربلا جانے والے زائرین کا مسئلہ: زمینی راستوں کی بندش، حکومتی دعوے اور زمینی حقائق

حکومت زائرین کے اس دینی اور روحانی سفر کو آسان بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے، نہ کہ محض تسلی بخش بیانات پر اکتفا کرے

سید عاطف ندیم-پاکستان
محرم الحرام اور چہلم سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے موقع پر دنیا بھر سے کروڑوں زائرین کربلا کا رخ کرتے ہیں۔ پاکستان سے بھی ہر سال ہزاروں کی تعداد میں عاشقانِ اہل بیت علیہم السلام زیارتِ کربلا کے لیے عراق جاتے ہیں۔ تاہم رواں سال ایک بار پھر زمینی راستوں سے زائرین کے سفر پر پابندی نے شدید تشویش اور اضطراب پیدا کر دیا ہے۔
وزیر داخلہ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ "زمینی راستوں سے زائرین کے کربلا جانے پر پابندی کا فیصلہ ایران اور عراق کی حکومتوں کی رضامندی سے کیا گیا ہے”۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس دعوے میں کتنی صداقت ہے؟ اگر واقعی تینوں ممالک کے درمیان باہمی اتفاق سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے، تو اس کی وجوہات کیا ہیں، اور پاکستانی زائرین کو اس کے متبادل کے طور پر کیا سہولت دی جا رہی ہے؟
بلوچستان کی صورتحال: "ایک ایس ایچ او کی مار” یا مکمل حکومتی بےبسی؟
کچھ عرصہ قبل وزیر داخلہ یہی فرمایا کرتے تھے کہ "بلوچستان میں بدامنی ایک ایس ایچ او کی مار ہے”۔ مگر آج جب زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے، تو یہ سوال شدت سے جنم لیتا ہے کہ اگر امن و امان واقعی اس قدر معمولی مسئلہ تھا، تو آج بلوچستان سے گزرنے والے زائرین کے لیے راستے کیوں بند ہیں؟ کیا حکومت اپنی ہی سابقہ بیانیے کی نفی کر رہی ہے؟ یا پھر حالات واقعی اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ ریاست زائرین کی حفاظت کی ضمانت دینے سے قاصر ہے؟
زائرین کے لیے متبادل راستہ: وعدہ یا فریب؟
حکومت کی جانب سے ایک اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ زائرین کو بحری راستے سے بھیجنے کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ منصوبہ کب سے نافذ العمل ہو گا؟ کیا اس کے لیے زائرین کو رجسٹریشن کا کوئی طریقہ کار بتایا گیا ہے؟ اور سب سے اہم بات، کیا یہ متبادل واقعی زمینی راستے کی بندش کا موزوں حل ہے؟
تاحال حکومت کی جانب سے کوئی واضح ٹائم لائن یا عملدرآمد کا طریقہ کار پیش نہیں کیا گیا، جس سے شکوک و شبہات مزید بڑھ رہے ہیں۔
کیا بلوچستان حکومت بے بس ہو چکی ہے؟
یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ بلوچستان ایک عرصے سے بدامنی اور شدت پسندی کا شکار رہا ہے، مگر اگر مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت زائرین کے لیے ایک محفوظ راہداری تک فراہم نہیں کر سکتیں، تو یہ عوامی نمائندگی اور حکمرانی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ بلوچستان حکومت کے ہاتھ سے معاملات مکمل طور پر نکل چکے ہیں؟ اور اگر ایسا ہے تو اس کا اعتراف کون کرے گا؟
زائرین سے اپیل: صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں
اگرچہ زائرین کے جذبات قابل فہم ہیں، مگر موجودہ حالات میں صبر و تحمل سے کام لینا ہی بہتر حکمت عملی ہوگی۔ تاہم، یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت زائرین کے اس دینی اور روحانی سفر کو آسان بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے، نہ کہ محض تسلی بخش بیانات پر اکتفا کرے۔
نتیجہ:
زائرین کا مسئلہ محض مذہبی نہیں بلکہ انسانی، انتظامی اور سیاسی مسئلہ بھی ہے۔ یہ حکومت وقت کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہوئے، ان کے سفرِ کربلا کو محفوظ اور آسان بنائے۔ زمینی راستوں کی بندش، مبہم سرکاری بیانات، اور بحری متبادل کے وعدے — سب مل کر عوامی اعتماد کو مجروح کر رہے ہیں۔ اس نازک موقع پر ضرورت ہے شفافیت، دیانت داری اور عملی اقدامات کی، نہ کہ محض دعوؤں اور وضاحتی بیانات کی۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button