
وہ جو دولت سمیٹتے رہے ؟…..ناصف اعوان
کل تک سیاستدان بڑے بدنام تھے ہر کوئی ان پر انگلیاں اٹھا رہا تھا کہ انہوں نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے
بد عنوانی کا زہر ہمارے سماج کی رگ رگ میں سرایت کر چکا ہے جس سے سماجی اقدار ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آتی ہیں۔
دراصل اس میں قصور ہمارے حکمران طبقات کا ہے جن میں بعض کالی بھیڑیں اٹھہتر برس سے جہاں تک ممکن ہوا مال و زر سمیٹتی آرپی ہیں جنہیں دیکھ کر عام آدمی بھی اسے جائز تصور کرنے لگا ہے اس کا کہنا ہے کہ جب ان کے رہنما ڈھیروں دولت اکٹھی کرتے ہیں اور عوام کے بارے میں نہیں سوچتے تو پھر وہ بھی اپنی بقا کا سامان اکٹھا کرنے کاحق رکھتے ہیں چاہے وہ جائز ہو یا ناجائز لہذا آج بد عنوانی غلط نہیں سمجھی جا رہی یہی وجہ ہے کہ جب ہم بھاری قرضے لے کر معیشت کی گاڑی چلا رہے ہیں تو بھی بد عنوانی اپنے عروج پر پہنچی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔جو لوگ وسیع پیمانے پر دھڑا دھڑ پیسا اپنی تجوریوں میں ٹھونس رہے ہیں اگرچہ ان کی تعداد بہت کم ہے مگر اس سے قومی معاشی حالت زبوں حالی کے سمندر میں غوطہ زن ہے ۔بد عنوانی اب کروڑوں میں نہیں اربوں کھربوں میں ہونے لگی ہے۔ سوشل میڈیا اس حوالے سے نت نئے انکشافات کر رہا ہے ۔
کل تک سیاستدان بڑے بدنام تھے ہر کوئی ان پر انگلیاں اٹھا رہا تھا کہ انہوں نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے اسی لئے ہی غربت ختم نہیں ہو رہی مہنگائی اور بے روز گاری آکاس بیل کی طرح بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے مگر اب آکر معلوم ہوا کہ یہ تو آٹے میں نمک برابر مال اینٹھتے رہے ہیں اصل لوٹ مار تو مبینہ طور سے بیورو کریسی ( ساری نہیں ) کرتی آئی ہے مگر اسے پوچھنے والا کوئی نہیں تھا نہ ہے کیونکہ پوچھنا تو اس نے خود ہوتا ہے لہذا طویل عرصہ سے اعلیٰ سطحی با اختیاروں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا سلسلہ جاری رکھا ۔خواجہ آصف وزیر دفاع نے اس پہلو کی واضح طور سے نشاندہی کی ہے انہوں نے بتایا کہ افسر شاہی کی ایک بڑی تعداد نے پرتگال کی شہریت لینے کے لئے وہاں درخواستیں دے رکھی ہیں تاکہ وہ اس کا پاسپورٹ حاصل کرکے اپنے بال بچوں سمیت دوسرے ملکوں میں مستقل قیام کر سکے۔ ظاہر ہے پرتگالی پاسپورٹ کے حصول کے لئے اربوں روپے جمع کروائے گئے ہوں گے؟
اندازہ لگایاجا سکتا ہے کہ کس طرح وطن عزیز کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سیاستدان بے چارے لگتے ہیں جو صبح شام لوگوں کی نفرت کا نشانہ بنتے ہیں ان کی گالیاں سنتے ہیں. جبکہ دولت سمیٹنے میں افسر شاہی بہت آگے بتائی جارہی ہے جو خود کو عقل کُل سمجھتی ہے اور عام آدمی سے شدید نفرت کرتی ہے۔ کیا وہ بتا سکتی ہےکہ جب وہ بڑی عقلمند ہے تو ملک میں غربت کا کالا ناگ کیوں پھن پھیلائے ہوئے ہے مگر وہ اس کا سارا ملبہ حکمرانوں پر ڈال دے گی اور یہ بھی کہے گی کہ وہ ان کے ماتحت ہے لہذا وہ تسلیم کرے کہ وہ عقل کُل نہیں وہ یہ بھی مانے کہ وہ عوام کی خدمت گار ہے ”بادشاہ“نہیں۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ایک طرف وہ ٹٹیری کی طرح کہتی ہے کہ اس نے آسمان تھاما ہوا ہے دوسری جانب اس کا کہنا ہے کہ وہ سیاستدانوں کے زیر اثر ہے۔
معذرت کے ساتھ یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ ملک عزیز کو یہاں تک پہنچانے میں بیوروکریسی کا اہم کردار ہے اس نے مقابلے کا امتحان پاس کرکے یہ سمجھ لیا کہ وہ ملک کا نظام بہتر طور سے چلا سکتی ہے عوامی نمائندوں کو کیا معلوم کہ ریاستی امور کیسے چلائے جاتے ہیں وہ بڑے بڑے منصوبے بنانے اور ان کو تکمیل تک پہنچانے کا فہم نہیں رکھتے یہ سب وہی جانتی ہے یعنی اس کے نزدیک عوام کے نمائندے احمق ہوتے ہیں ؟ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ سول بیورو کریسی پوری کی پوری ایسا سوچتی ہے اس میں درد دل رکھنے والے لوگ بھی موجود ہیں جو اپنے تئیں لوگوں کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔ ان کی بیرون ملک جائیدادیں بھی نہیں ان کے بچے بھی باہر نہیں مگر وہ اس نظام کے آگے بے بس ہیں کہ جو مجموعی طور سے بد عنوانی کو نہیں روک سکا بنیادی انسانی حقوق نہیں دے سکا جس کی وجہ سے عام آدمی کے ذہن میں وسوسوں اور نفرتوں نے جنم لیا اس کا زمہ دار کوئی ایک فرد یا محکمہ نہیں سبھی ہیں ۔ یہ کوئی بات نہیں کہ جب سیاستدانوں اور حکمرانوں کے معاملات ٹھیک نہ ہوں تو وہ عوام کی توجہ دوسری طرف موڑ دیں اب اگر خواجہ آصف وزیر دفاع کو کچھ کہنا پڑا ہے تو سوچنے کی بات ہےکہ انہوں نے اس حوالے سے پہلے کیوں لب کشائی نہیں کی شاید انہیں اپنی حریف جماعتوں پر ہی نظریں گاڑے رکھنا تھا۔ خصوصاً پی ٹی آئی کو نکڑے لگانا مقصود تھا لہذا جتنا بھی قومی سرمایہ باہر گیا اس کے زمہ دار وہ بھی ہو سکتے ہیں ؟
خیر بد عنوانی نے ہمارے قومی وجود کو کھوکھلا کر دیا ہے اور اب چل سو چل ہے جبکہ معاشی حالت انتہائی دِگر گوں ہے۔ جس پر قابو پانے کے لئے بھاری ترین قرضے لئے جارہے ہیں جنہیں ادا کرنا کسی ایک کے بس میں نہیں ہو گا تمام سٹیک ہولڈر کو مل کر سوچنا ہو گا مگر معذرت کے ساتھ حکمران جماعتوں کو ایک ہی کام نظر آرہا ہے کہ پی ٹی آئی کا کسی طرح مَکو ٹھپاجائے مگر وہ ابھی تک اس میں کامیاب نہیں ہو سکیں کیونکہ عوام کی غالب اکثریت اس کے ساتھ ہے وہ متعدد حربوں کے آزمائے جانے کے باوجود بھی اس سے رخ نہیں پھیر رہی مگر اہل اقتدار و اختیار بضد ہیں کہ وہ ان کی ہاں میں ہاں ملائے جو شاید ممکن نہیں کہ بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہے لہذا سیاسی صوت حال کے مستحکم ہونے کا فی الحال کوئی امکان نہیں اس کے لئے فریقین کو تحمل و برداشت سے کام لینا ہو گا اور متحد ہونا ہو گا اگر وہ آپس میں لڑتے جھگڑتے رہے تو پرتگال کے پرندے غریب عوام کے پیسوں سے اڑانیں بھرتے رہیں گے خزانے بھی ہتھیاتے رہیں گےاور اصل حکمرانی کے مزے بھی لوٹتے رہیں گے جنہیں پس زنداں جانے کا بھی اندیشہ لاحق نہیں ہو گا کیونکہ انہوں نے اپنے راستے کا ہر کانٹا چن لینا ہے لہذا سیاستدانوں سے عرض ہے کہ وہ وقت کی چال کو دیکھیں اس کا عمیق نظروں سے مشاہدہ کریں کہ کہیں ان پر قانون کی نگاہ تو نہیں پڑنے والی اگر وہ انتقامی سیاست کے بھنور میں پھنسے رہے تو کوئی بھی بہتے چشموں اور آبشاروں کے نظارے نہیں کر سکے گا اس کا انہیں ادراک بھی ہو گا لہذا سیاست کو سیاسی انداز سے ہی دیکھیں اور ایک دوسرے سے بغلگیر ہو جائیں !