بین الاقوامیتازہ ترین

مودی حکومت پر اسرائیلی بیانیے کی گہری چھاپ، فلسطینی مظالم پر خاموشی پر تنقید کی شدت

پرینکا گاندھی کی دو ٹوک مذمت، اسرائیلی سفیر کا سخت ردعمل، بھارت میں اسرائیلی اثر و رسوخ پر سوالات شدت اختیار کرنے لگے

نئی دہلی (انٹرنیشنل ڈیسک) — بھارت میں نریندر مودی حکومت کی خارجہ اور داخلی پالیسیوں پر اسرائیلی اثر و رسوخ کے بڑھتے ہوئے آثار نمایاں ہو گئے ہیں۔ غزہ پر اسرائیل کی جانب سے جاری وحشیانہ بمباری اور فلسطینی عوام کے قتلِ عام پر عالمی سطح پر شدید ردعمل اور احتجاج کے باوجود بھارت کی مجرمانہ خاموشی نے نہ صرف عوامی بلکہ سیاسی حلقوں میں بھی سخت تشویش پیدا کر دی ہے۔

پرینکا گاندھی کا دوٹوک مؤقف: ’’مودی حکومت کی خاموشی شرمناک ہے‘‘

بھارتی حزب اختلاف کی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کی رہنما پرینکا گاندھی نے اپنے سخت بیان میں مودی حکومت کی خاموشی کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ:

"جب پوری دنیا اسرائیل کے مظالم کے خلاف سراپا احتجاج ہے، ایسے وقت میں بھارت کی خاموشی شرمناک اور اس کے فلسطینی مؤقف کو فریب پر مبنی قرار دیا جا سکتا ہے۔”

انہوں نے کہا کہ بھارت ہمیشہ سے غاصب طاقتوں کی مخالفت اور مظلوم اقوام کی حمایت کے اصولی مؤقف پر کھڑا رہا ہے، مگر موجودہ حکومت کی اسرائیل نوازی بھارت کی تاریخی سفارتی پالیسیوں سے انحراف ہے۔

اسرائیلی سفیر کا ردعمل، سفارتی آداب کی پامالی؟

پرینکا گاندھی کے بیان پر بھارت میں تعینات اسرائیلی سفیر ریوین آزر کا سخت ردعمل سامنے آیا، جنہوں نے کانگریس رہنما کے موقف کو "شرمناک” قرار دیا، اور اسے اسرائیل مخالف پروپیگنڈا سے تعبیر کیا۔
سفیر کے اس لب و لہجے کو سیاسی و سفارتی حلقوں میں "سفارتی آداب کی کھلی خلاف ورزی” قرار دیا جا رہا ہے۔

تجزیہ کاروں کی رائے: ’’سفیر وائسرائے بن چکا ہے‘‘

بھارتی سیاسی و دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی سفیر کا اس قدر بے باک اور جارحانہ انداز یہ ظاہر کرتا ہے کہ مودی حکومت کے تحت اسرائیل کو بھارت میں غیر معمولی اثر و رسوخ حاصل ہو چکا ہے۔

معروف تجزیہ کار پروفیسر اروند چترویدی کے مطابق:

"اب اسرائیلی سفیر کی حیثیت محض ایک سفارت کار کی نہیں، بلکہ وائسرائے جیسی ہو چکی ہے، جو عوامی بیانات اور سیاسی بیانیے تک پر اثر انداز ہو رہا ہے۔”

نظریاتی ہم آہنگی یا پالیسی کی غلامی؟

ماہرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ بھارت اور اسرائیل کے درمیان صرف دفاعی یا ٹیکنالوجی تعاون ہی نہیں بلکہ ایک نظریاتی ہم آہنگی بھی پیدا ہو چکی ہے، جس کی بنیاد شدت پسند قوم پرستی، اقلیتوں کے خلاف سخت گیر رویے، اور میڈیا و سول سوسائٹی پر کنٹرول جیسی مماثلتوں پر ہے۔

بعض ناقدین نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ:

"نریندر مودی ایک ’ڈمی وزیر اعظم‘ بن چکے ہیں، اصل فیصلے تل ابیب کے مفادات کے تحت ہو رہے ہیں، جو بھارت کو اس کے علاقائی اور عالمی اصولی موقف سے ہٹا کر ایک تابع ریاست بنانے کی طرف لے جا رہے ہیں۔”

اندرونی مخالفت اور عوامی ردعمل میں اضافہ

بھارت کے اندر بھی اب ایسی آوازیں اُبھرنے لگی ہیں جو فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف بھارت کے غیر انسانی مؤقف کو چیلنج کر رہی ہیں۔ مختلف شہروں میں سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیموں، طلبہ یونینز اور مسلم رہنماؤں نے بھارت کی پالیسی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

بین الاقوامی ساکھ کو خطرہ؟

سیاسی مبصرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر بھارت نے عالمی انسانی حقوق کی پامالیوں پر اپنی سفارتی غیر جانبداری برقرار نہ رکھی تو اس کی بین الاقوامی ساکھ کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے، خاص طور پر ان ترقی پذیر اور مسلم ممالک میں جہاں بھارت کو روایتی ہمدردی حاصل رہی ہے۔


ادارہ نوٹ:

بھارت کی فلسطین سے متعلق دیرینہ پالیسی میں حالیہ تبدیلی صرف سفارتی سطح پر نہیں بلکہ نظریاتی و جغرافیائی سیاست میں گہرے تغیر کی نشاندہی کرتی ہے۔ وقت بتائے گا کہ بھارت اپنی خودمختار خارجہ پالیسی کو باقی رکھ پائے گا یا کسی طاقت کے زیرِ اثر ڈھلتا جائے گا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button