
کوہ پیمائی جاری رہے گی، حکومت کا پابندی نہ لگانے کا فیصلہ: گلگت بلتستان میں حادثات کے باوجود غیرملکی کوہ پیماؤں کی مہمات جاری
چینی اور جرمن کوہ پیماؤں کی ہلاکت، قدرتی خطرات، اور معیشت پر اثرات – حکومتی موقف اور ردعمل تفصیل سے سامنے آگیا
گلگت (خصوصی نمائندہ)
پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں واقعہ دنیا کی بلند ترین پہاڑی سلسلوں کے درمیان کوہ پیمائی کی سرگرمیاں خطرات اور حادثات کے باوجود بدستور جاری ہیں۔ حالیہ دنوں میں غیرملکی کوہ پیماؤں کی ہلاکتوں کے باوجود گلگت بلتستان حکومت نے کوہ پیمائی کی مہمات پر نہ تو کوئی پابندی عائد کی ہے اور نہ ہی کوئی تنبیہی ہدایت نامہ جاری کیا ہے۔
گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراقد نے امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (AP) سے بات کرتے ہوئے واضح کیا کہ کوہ پیمائی اپنی نوعیت میں ایک خطرناک کھیل ہے، جس کے تمام خطرات سے کوہ پیما مکمل طور پر آگاہ ہوتے ہیں، اور اپنی رضامندی اور شوق سے ان مہمات میں شریک ہوتے ہیں۔
چینی کوہ پیما کی ہلاکت، عالمی توجہ کا مرکز
ترجمان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چین سے تعلق رکھنے والی 37 سالہ کوہ پیما گوان جِنگ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو (K2) سر کرنے کے دوران ایک حادثے کا شکار ہو کر ہلاک ہو گئیں۔ اطلاعات کے مطابق وہ اس وقت جان کی بازی ہار گئیں جب منگل کے روز ان پر پہاڑ سے پتھر آ گرا۔
ان کی لاش سنیچر کے روز ریسکیو ٹیموں نے بازیاب کی، جو اب سکردو میں واقع کمبائنڈ ملٹری ہسپتال (سی ایم ایچ) کے مردہ خانے میں موجود ہے۔ حکام کے مطابق اسلام آباد میں چینی سفارتخانے سے باقاعدہ رابطہ کیا جا چکا ہے اور اب آئندہ اقدامات ان کی ہدایات کی روشنی میں کیے جائیں گے۔
جرمن اولمپک گولڈ میڈلسٹ کی بھی ہلاکت
چند ہفتے قبل ایک اور افسوسناک واقعہ میں جرمنی سے تعلق رکھنے والی اولمپک گولڈ میڈلسٹ اور مشہور کوہ پیما لورا ڈالمایر بھی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ وہ قراقرم کے علاقے میں واقع لیلیٰ پیک (Laila Peak) سر کرنے کی کوشش کے دوران ہلاک ہوئیں۔ یہ واقعات کوہ پیمائی کے دوران لاحق خطرات کی شدت کو اجاگر کرتے ہیں۔
کوہ پیمائی: خطرات کے باوجود اقتصادی اہمیت کی حامل سرگرمی
حکومتی ترجمان فیض اللہ فراقد نے واضح کیا کہ کوہ پیمائی نہ صرف پاکستان کی عالمی ساکھ کے لیے اہم ہے بلکہ گلگت بلتستان کے مقامی افراد کی روزی روٹی کا بھی ایک بڑا ذریعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر سال مئی سے ستمبر کے درمیان، سینکڑوں مقامی افراد بطور گائیڈ، پورٹر اور معاون عملے کے خدمات انجام دیتے ہیں، اور یہی آمدن ان کے خاندانوں کے سال بھر کے اخراجات کا ذریعہ بنتی ہے۔
ترجمان کے مطابق حکومت کوہ پیماؤں کو ریسکیو سسٹم، سکیورٹی، تربیت یافتہ عملہ اور بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورت حال میں فوری ردعمل ممکن ہو۔
قدرتی آفات اور کوہ پیماؤں کے لیے بڑھتے چیلنجز
حالیہ دنوں میں گلگت بلتستان میں معمول سے زیادہ مون سون بارشوں کے باعث سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں۔ ان قدرتی عوامل نے نہ صرف مقامی زندگی کو متاثر کیا بلکہ کوہ پیماؤں کے لیے خطرات میں بھی اضافہ کیا ہے۔
گزشتہ برس اگست میں بھی ایک ہنگامی صورتحال اس وقت پیش آئی جب دو روسی کوہ پیما ایک دور افتادہ پہاڑی علاقے میں چھ دن تک پھنسے رہے۔ خوش قسمتی سے وہ بروقت ریسکیو کیے جا سکے، تاہم یہ واقعہ اس امر کی یاد دہانی ہے کہ ان مہمات میں خطرات ہر وقت موجود رہتے ہیں۔
لاشوں کی بازیابی یا تدفین: کوہ پیماؤں کی مرضی کو مقدم رکھا جاتا ہے
پاکستان میں غیرملکی کوہ پیماؤں کی لاشیں عام طور پر ان کے اہلِ خانہ کی خواہش پر ہی بازیاب کی جاتی ہیں۔ اگر اہل خانہ بازیابی سے انکار کریں، تو لاش کو اسی مقام پر چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں موت واقع ہوئی ہو، جیسا کہ بین الاقوامی کوہ پیمائی کی روایات میں عام ہے۔
بین الاقوامی کوہ پیماؤں کی آمد میں اضافہ
ہر برس سینکڑوں غیرملکی کوہ پیما نانگا پربت، کے ٹو، براڈ پیک، گاشربرم، لیلیٰ پیک سمیت کئی بلند چوٹیوں کو سر کرنے پاکستان آتے ہیں۔ یہ سیاحتی سرگرمیاں نہ صرف مقامی معیشت میں بہتری لاتی ہیں بلکہ پاکستان کے بین الاقوامی امیج کو بھی بہتر کرتی ہیں۔
حکومت کی پالیسی: خطرات سے آگاہی، لیکن سرگرمیوں پر پابندی نہیں
فیض اللہ فراقد نے زور دیا کہ حکومت کوہ پیماؤں کو ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن ان مہمات کو رضاکارانہ اور خطرات سے آگاہی کی بنیاد پر جاری رکھا جائے گا۔ ان کے مطابق پابندیاں لگانے کی بجائے، احتیاطی تدابیر، تربیت یافتہ عملہ، اور ریسکیو سسٹم کو مضبوط بنانے پر توجہ دی جا رہی ہے۔
نتیجہ: جذبہ، خطرہ، اور معیشت — کوہ پیمائی کا پاکستانی منظرنامہ
کوہ پیمائی پاکستان کے شمالی علاقوں کی شناخت، فخر اور معیشت کا حصہ بن چکی ہے۔ حالیہ ہلاکتوں نے خطرات کو ضرور اجاگر کیا ہے، مگر اس کے باوجود یہ سرگرمیاں نہ صرف جاری رہیں گی بلکہ حکومتی سرپرستی میں محفوظ بنانے کی کوششیں بھی تیز تر ہوں گی۔ قدرتی حسن، بلند پہاڑ، مہمان نواز لوگ، اور چیلنجز سے بھرپور مہمات — یہی وہ عناصر ہیں جو دنیا بھر کے کوہ پیماؤں کو پاکستان کی جانب کھینچ لاتے ہیں۔