پاکستاناہم خبریں

پاکستان: شدید مون سون بارشوں اور سیلاب سے ملک بھر میں قیامت صغریٰ، 344 ہلاکتیں، 150 سے زائد لاپتہ

بونیر میں سب سے زیادہ جانی نقصان، دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے، اجتماعی جنازے، بچاؤ کے کاموں میں رکاوٹ، متاثرین کی حالت ناگفتہ بہ

اسلام آباد/پشاور/بونیر/سوات, خصوصی نمائندگان
پاکستان ایک بار پھر شدید قدرتی آفت کی لپیٹ میں ہے، جہاں جمعرات سے جاری موسلا دھار بارشوں نے اچانک سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کی صورت میں تباہی مچائی ہے۔ حکام کے مطابق اب تک ملک بھر میں 344 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 150 سے زائد افراد لاپتہ ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں خیبر پختونخوا سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں 317 افراد جاں بحق ہوئے، اور سب سے بڑا انسانی المیہ ضلع بونیر میں پیش آیا جہاں 208 سے زائد ہلاکتیں اور درجنوں دیہات ملبے تلے دب گئے۔


قدرتی آفت یا موسمیاتی تبدیلیوں کی قیمت؟

پاکستان کے محکمہ موسمیات اور ماہرین موسمیات متفق ہیں کہ رواں سال مون سون سیزن غیر معمولی شدت کے ساتھ آیا ہے۔
قومی ڈیزاسٹر ایجنسی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر کے مطابق:

"مون سون کی شدت پچھلے سال کی نسبت 50 سے 60 فیصد زیادہ ہے۔ آئندہ چند ہفتوں میں مزید تین سپیلز متوقع ہیں، جو ستمبر کے پہلے ہفتوں تک جاری رہ سکتے ہیں۔”

ماہرین اس صورتحال کو موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں، جس سے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔


سب سے زیادہ متاثرہ علاقے

ضلعہلاکتیںلاپتہ افرادصورت حال
بونیر208150+مکمل دیہات بہہ گئے، کئی ملبے تلے دبے
شانگلہدرجنوںمتعددشدید لینڈ سلائیڈنگ، رابطہ منقطع
باجوڑ، سوات، مانسہرہ، بٹگرام50+درجنوںآفت زدہ قرار دیے جا چکے

ریسکیو اور بحالی: مشکلات، رکاوٹیں، امید کی تلاش

ریسکیو ایجنسی کے ترجمان بلال احمد فیضی کے مطابق:

"نو اضلاع میں تقریباً 2,000 ریسکیو اہلکار کام کر رہے ہیں۔ لیکن مسلسل بارش، پھسلن، اور راستوں کی بندش امدادی سرگرمیوں میں بڑی رکاوٹ بن رہے ہیں۔”

بونیر میں صورتحال انتہائی ابتر ہے، جہاں نہ صرف زمینی راستے منقطع ہو چکے ہیں بلکہ بجلی اور مواصلاتی نظام بھی شدید متاثر ہے۔
اے ایف پی کے صحافیوں نے دیکھا کہ علاقے میں آدھی دفن شدہ گاڑیاں، دکانوں کا تباہ شدہ سامان، اور کیچڑ سے بھرے مکان متاثرین کی کربناک حالت کی گواہی دے رہے ہیں۔


عوامی بیانات: غم، صدمہ، اور بے بسی

قیصر علی شاہ، مقامی قبر کھودنے والے نے کہا:

"میں نے دو دنوں میں 29 قبریں کھودی ہیں، جن میں سے 6 بچوں کی تھیں۔ ہر قبر میرے دل کو چیر کر رکھ دیتی ہے۔ اب جسم جواب دے چکا ہے، مزید یہ کام نہیں کر سکتا۔”

نور محمد، ایک دکاندار:

"ہمارا سب کچھ بہہ گیا ہے۔ دکانیں ختم ہو گئیں، سامان بکھر چکا ہے۔ لوگوں کی ساری زندگی کی جمع پونجی تباہ ہو گئی۔”

سیف اللہ خان، 32 سالہ اسکول ٹیچر، بونیر:

"میں نے ان بچوں کی لاشیں نکالیں جنہیں میں روز پڑھاتا تھا۔ ان کے چہرے اب بھی میری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ پورے علاقے پر صدمے کا عالم ہے۔”


 جغرافیائی چیلنجز اور متاثرین کی حالت

خیبر پختونخوا کے کئی دیہی علاقے پہاڑی ہیں، جہاں لینڈ سلائیڈنگ سے سڑکیں اور پل تباہ ہو گئے ہیں۔
دیہاتی خود ہاتھوں سے درخت کاٹ کر سڑکیں صاف کرنے کی کوشش کرتے نظر آئے تاکہ ریسکیو ٹیمیں پہنچ سکیں۔
بونیر کے رہائشی سید وہاب باشا کا کہنا تھا:

"ہم کئی دن گھروں میں پھنسے رہے۔ باہر نکلنا ممکن نہ تھا۔ سڑک بہہ گئی، یہی واحد راستہ تھا۔ غریب آبادی مکمل تباہ ہو گئی ہے۔”


اجتماعی جنازے: آنکھیں نم، دل غم زدہ

ہفتے کے دن بونیر کے میدان میں اجتماعی جنازے ادا کیے گئے، جہاں خون آلود سفید چادروں میں لپٹے درجنوں لاشے رکھے گئے۔
قریبی کھیتوں میں تباہ شدہ درخت، کیچڑ اور بکھرا بھوسا انسانی دکھ کی شدت کو بڑھا رہا تھا۔
لوگ اپنے گھروں سے کیچڑ اور ملبہ نکالنے میں مصروف تھے، لیکن آنکھوں میں صدمہ اور بے بسی نمایاں تھی۔


مستقبل کے خطرات: بارشیں ابھی ختم نہیں ہوئیں

محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ اگلے چند دنوں میں مزید شدید بارشیں متوقع ہیں۔
این ڈی ایم اے کے مطابق، 22 اگست کے بعد تین مزید مون سون اسپیلز پاکستان کے مختلف علاقوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔
اب تک مون سون سیزن کے آغاز سے 650 سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، اور 920 سے زائد زخمی۔


پاکستان اور ماحولیاتی خطرات

پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
2022 میں بھی تباہ کن سیلاب نے ملک کا ایک تہائی حصہ ڈبو دیا تھا، اور 1700 سے زائد جانیں گئی تھیں۔


حکومت اور عالمی برادری کے لیے لمحہ فکریہ

صوبائی حکومتوں نے بونیر، سوات، شانگلہ، باجوڑ، مانسہرہ اور بٹگرام کو آفت زدہ علاقے قرار دے دیا ہے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وقتی اقدامات مسئلے کا حل نہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں بہتر انفراسٹرکچر، پیشگی انتباہی نظام، مقامی کمیونٹیز کی تیاری اور بین الاقوامی امداد کی اشد ضرورت ہے۔


نتیجہ: انسانیت، تیاری اور ایک نئی سوچ کی ضرورت

پاکستان ایک بار پھر قدرت کے قہر کا شکار ہوا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ہم نے ماضی کے سبق سے کیا سیکھا؟
بچاؤ ممکن تھا، تیاری کی جا سکتی تھی، لیکن اب صرف ملبے، جنازوں، اور غمزدہ چہروں کے سوا کچھ نہیں بچا۔

وقت آ چکا ہے کہ حکومت، ادارے، میڈیا، اور عوام سب مل کر اس چیلنج کا سامنا کریں، کیونکہ قدرت اگلی بار خبردار کیے بغیر وار کرے گی۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button