
غزہ قحط کی لپیٹ میں: اقوام متحدہ کی رپورٹ نے عالمی برادری کو جھنجھوڑ دیا، انسانی المیہ سنگین تر ہونے لگا
"غزہ کی 25 فیصد آبادی یعنی پانچ لاکھ سے زائد افراد شدید بھوک کا شکار ہیں، جن کی زندگی کو غذائی قلت کے باعث سنگین خطرات لاحق ہیں۔"
رپورٹ: عالمی امور ڈیسک وائس آف جرمنی
اقوام متحدہ کی زیر نگرانی خوراک کی عالمی قلت کی نگرانی کرنے والے ادارے "انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کلاسیفکیشن” (IPC) نے اپنی تازہ ترین اور انتہائی تشویش ناک رپورٹ میں تصدیق کی ہے کہ غزہ اس وقت "قحط” کی لپیٹ میں ہے۔ اس اعلان نے نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا میں ایک بار پھر انسانی المیے کی شدت کو اجاگر کر دیا ہے۔
لاکھوں افراد قحط کا شکار، خوراک ناپید
رپورٹ کے مطابق، غزہ کا سب سے بڑا شہر اس وقت شدید قحط کا شکار ہے، جبکہ اگر جنگ بندی نہ ہوئی اور انسانی امداد کی فراہمی پر عائد پابندیاں ختم نہ کی گئیں تو یہ قحط جلد ہی دیر البلح اور خان یونس تک پھیلنے کا خدشہ ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ:
"غزہ کی 25 فیصد آبادی یعنی پانچ لاکھ سے زائد افراد شدید بھوک کا شکار ہیں، جن کی زندگی کو غذائی قلت کے باعث سنگین خطرات لاحق ہیں۔”
خوراک کی بندش، انسانی امداد کی ناکہ بندی اور بمباری — المیے کی وجوہات
آئی پی سی کی رپورٹ سے قبل متعدد بین الاقوامی امدادی ادارے خبردار کر چکے تھے کہ اسرائیلی افواج کی جانب سے خوراک، ادویات اور دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی پر عائد پابندیوں اور مسلسل فوجی کارروائیوں کے باعث فلسطینی شہری، خصوصاً بچے اور بیمار افراد، قحط کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔
اسرائیل کی تردید، حقیقت برعکس
اس رپورٹ کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے قحط کی خبروں کو "جھوٹا پراپیگنڈا” قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ:
"یہ خبریں حماس کی جانب سے پھیلائی جا رہی ہیں تاکہ اسرائیل کو عالمی سطح پر بدنام کیا جائے۔”
تاہم، غزہ میں بیمار اور لاغر بچوں کی تصویریں اور بھوک سے ہونے والی اموات کی رپورٹس عالمی میڈیا میں سامنے آنے کے بعد اسرائیلی حکومت نے انسانی امداد میں اضافے کے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔
امداد ناکافی، نقل مکانی کا سیلاب
اقوام متحدہ کے حکام اور مقامی فلسطینی ذرائع کے مطابق غزہ میں امدادی سامان کی رسائی نہایت محدود ہے۔ بیشتر علاقوں میں خوراک کی ترسیل ممکن نہیں رہی، اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے نتیجے میں خوراک کی مقامی پیداوار مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔
جنگ کی شدت میں اضافہ، قحط مزید گہرا ہونے کا اندیشہ
ادھر اسرائیلی وزارتِ دفاع نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ غزہ شہر پر قبضے کے لیے 60 ہزار ریزرو فوجیوں کو متحرک کیا گیا ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے دھمکی دی کہ اگر حماس نے ہتھیار نہ ڈالے اور یرغمالیوں کو رہا نہ کیا تو:
"غزہ شہر کو رفح اور بیت حنون کی طرح ملبے کا ڈھیر بنا دیا جائے گا۔”
دوسری جانب، ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کارروائی سے نہ صرف انسانی جانوں کا نقصان ہوگا بلکہ خوراک کا بحران بھی ناقابلِ تصور حد تک سنگین ہو جائے گا۔
پہلا باضابطہ قحط کا اعلان — مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ کا سیاہ باب
یہ پہلا موقع ہے کہ آئی پی سی نے مشرقِ وسطیٰ کے کسی علاقے میں باضابطہ طور پر "قحط” کی تصدیق کی ہے۔ ادارے نے اس المیے کی بنیادی وجوہات کے طور پر جنگ، خوراک کی بندش، انسانی امداد کی ناکہ بندی اور وسیع پیمانے پر بے دخلی کو قرار دیا ہے۔
عالمی برادری کے لیے لمحۂ فکریہ
انسانی حقوق کے عالمی ادارے، امدادی تنظیمیں اور تجزیہ کار اس صورتحال کو ایک "انسانی ساختہ المیہ” قرار دے رہے ہیں اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ فوری جنگ بندی، انسانی راہداریوں کی بحالی، اور خوراک کی بلا رکاوٹ فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
خاموشی موت ہے
غزہ اس وقت ایک ایسی خونی لکیر پر کھڑا ہے جہاں سیاست، جنگ اور انسانی جانوں کا توازن مکمل طور پر بگڑ چکا ہے۔ قحط کی اس باضابطہ تصدیق کے بعد عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کا وقت آ گیا ہے۔
غزہ کے بچوں کی خالی پلیٹیں اور ان کی کمزور ہوتی سانسیں اب صرف خبروں کا موضوع نہیں، بلکہ انسانیت کے لیے ایک چبھتا ہوا سوال بن چکی ہیں۔