
یوکرینی حملے کے بعد روس سے ہنگری اور سلوواکیہ کو تیل کی فراہمی پانچ دن کے لیے معطل، یورپی توانائی تحفظ کو خطرات لاحق
"اس پائپ لائن کے بغیر ہمارے ممالک کو محفوظ توانائی کی فراہمی ممکن نہیں ہے۔ یہ حملہ ہماری توانائی سکیورٹی پر براہ راست حملہ ہے۔"
ماسکو (نیوز رپورٹ)
یوکرین اور روس کے درمیان جاری جنگ ایک نئے نازک مرحلے میں داخل ہو گئی ہے، جب یوکرینی فوج کے ایک تازہ حملے کے بعد روس سے یورپ کو تیل فراہم کرنے والی ایک اہم تنصیب کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اس حملے کے نتیجے میں ہنگری اور سلوواکیہ کو روسی تیل کی فراہمی کم از کم پانچ دن کے لیے معطل ہو گئی ہے، جس نے یورپی یونین کے توانائی تحفظ کے خدشات کو مزید بڑھا دیا ہے۔
یہ حملہ روسی شہر بریانسک کے قریب واقع اونیچا آئل پمپنگ اسٹیشن پر کیا گیا، جو سوویت دور کی دروژیبا (دوستی) پائپ لائن کا اہم حصہ ہے۔ اس پائپ لائن کے ذریعے روس سے ہنگری، سلوواکیہ، چیک جمہوریہ اور دیگر یورپی ممالک کو تیل فراہم کیا جاتا ہے۔ یوکرین کی بغیر پائلٹ فضائی نظام (ڈرونز) کی فورس کے کمانڈر رابرٹ برووڈی نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ایک ویڈیو ٹیلیگرام پر شیئر کی، جس میں پمپنگ اسٹیشن میں شدید آگ لگی ہوئی دیکھی جا سکتی ہے۔ اگرچہ ویڈیو کے مقام کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں ہو سکی، روسی حکام نے بھی اونیچا میں ایک توانائی تنصیب میں آگ لگنے کی تصدیق کی ہے۔
روس کے بریانسک علاقے کے گورنر، الیگزینڈر بوگوماز نے کہا کہ یہ آگ یوکرین کے میزائل اور ڈرون حملوں کا نتیجہ تھی، تاہم بعد ازاں اس پر قابو پا لیا گیا۔ روسی وزارت توانائی نے اس حوالے سے تبصرے سے گریز کیا ہے، لیکن ایک روسی صنعتی ذریعے کے مطابق پائپ لائن کی سپلائی چند دنوں کے لیے معطل رہ سکتی ہے۔
ہنگری اور سلوواکیہ کی شدید تشویش
اس پیش رفت کے بعد ہنگری اور سلوواکیہ، جو یورپی یونین کے رکن ممالک ہیں، نے یورپی کمیشن کو ایک مشترکہ خط میں خبردار کیا ہے کہ یوکرین کے تازہ حملے کی وجہ سے ان کی تیل کی درآمدات میں کم از کم پانچ دن کا تعطل آئے گا۔ دونوں ممالک نے کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ توانائی کی فراہمی کے تحفظ کے لیے ہنگامی اقدامات کرے۔
ہنگری کے وزیر خارجہ پیٹر زیجارٹو اور سلوواک وزیر خارجہ یوراج بلانار نے اپنے خط میں واضح کیا:
"اس پائپ لائن کے بغیر ہمارے ممالک کو محفوظ توانائی کی فراہمی ممکن نہیں ہے۔ یہ حملہ ہماری توانائی سکیورٹی پر براہ راست حملہ ہے۔”
پیٹر زیجارٹو نے بعد ازاں فیس بک پر ایک بیان میں لکھا، "یہ ہماری توانائی کی سکیورٹی پر ایک اور خطرناک حملہ ہے، جو نہ صرف ہماری معیشت بلکہ شہریوں کے روزمرہ کے معمولات کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔”
یوکرین کا موقف: روسی توانائی برآمدات کو نشانہ بنانا ضروری
یوکرین کی جانب سے دروژیبا پائپ لائن کے خلاف یہ اس ہفتے دوسرا حملہ ہے۔ اس سے قبل پیر اور منگل کو بھی تیل کی سپلائی میں رکاوٹ پیش آئی تھی۔ یوکرینی حکام کا کہنا ہے کہ روسی تیل اور گیس کے انفراسٹرکچر پر حملے جنگی حکمت عملی کا حصہ ہیں تاکہ روس کی برآمدی آمدن کو کم کیا جا سکے، جو ماسکو کی جنگی مشین کو چلانے میں مالی معاونت فراہم کرتی ہے۔
یوکرین کے صدر کے قریبی ذرائع کے مطابق، توانائی کے ڈھانچے پر یہ حملے روس کے ان مسلسل حملوں کا ردعمل ہیں، جن کے ذریعے ماسکو یوکرین کے گیس اور توانائی کے نظام کو نشانہ بنا رہا ہے، خاص طور پر سردیوں کی تیاریوں کے دوران۔
یورپی یونین میں تقسیم، 2027 تک روسی توانائی کا مکمل خاتمہ؟
یاد رہے کہ یورپی یونین نے 2022 میں روس کے مکمل حملے کے بعد ماسکو سے توانائی کی درآمدات میں مرحلہ وار کمی کا آغاز کیا تھا، اور 2027 کے آخر تک روسی تیل و گیس سے مکمل آزادی حاصل کرنے کا عزم کیا ہے۔ تاہم اس فیصلے کی ہنگری اور سلوواکیہ نے کھل کر مخالفت کی ہے، کیونکہ ان ممالک کی معیشتیں روسی توانائی پر انحصار کرتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک روس کے خلاف یورپی پابندیوں کی بھی مخالفت کرتے آئے ہیں، جنہیں یوکرین اپنی بقا اور ماسکو کو امن کی میز پر لانے کے لیے اہم سمجھتا ہے۔
امریکہ کی کوششیں اور ٹرمپ کا کردار
اس ساری صورتحال کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جو ایک بار پھر منصب صدارت پر براجمان ہیں، یوکرین تنازعے کو ختم کرنے کے لیے ایک ممکنہ امن معاہدے پر کام کر رہے ہیں۔ تاہم جنگی کارروائیوں میں حالیہ اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ میدانِ جنگ میں دونوں جانب سے کشیدگی کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے، جس سے ٹرمپ کی کوششوں کو بھی شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔
یورپ کے لیے خطرے کی گھنٹی
دروژیبا پائپ لائن پر یہ حملہ ظاہر کرتا ہے کہ یوکرین جنگ نہ صرف میدان جنگ تک محدود رہی ہے بلکہ اس کے اثرات یورپی توانائی سکیورٹی، معیشت، اور خارجہ پالیسیوں تک پہنچ چکے ہیں۔ اگر ایسے حملے جاری رہے تو یورپی یونین کے اندر توانائی کے حوالے سے مزید سیاسی تقسیم دیکھنے میں آ سکتی ہے، خاص طور پر ان ممالک میں جو اب بھی روسی تیل پر انحصار کرتے ہیں۔