
حماس کا اسرائیلی وزیر دفاع کے بیان پر شدید ردعمل: ’نسلی تطہیر کا کھلا اعتراف‘
ہماری شرائط بالکل واضح ہیں: تمام یرغمالیوں کی غیر مشروط رہائی اور حماس کا مکمل غیر مسلح ہونا
غزہ عالمی نیوز ڈیسک:
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز کے حالیہ دھمکی آمیز بیان کو ’’نسلی تطہیر کا اعتراف‘‘ قرار دیتے ہوئے سخت ردعمل دیا ہے۔ کاٹز نے جمعہ کے روز خبردار کیا تھا کہ اگر حماس نے اسرائیل کی شرائط تسلیم نہ کیں، تو غزہ سٹی کو بھی رفح اور بیت حانون کی طرح ملبے کا ڈھیر بنا دیا جائے گا۔
اسرائیلی دھمکیاں اور عسکری تیاری
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی جانب سے غزہ سٹی میں عسکری کارروائی کے عندیے کے بعد، وزیر دفاع کاٹز نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ:
“ہماری شرائط بالکل واضح ہیں: تمام یرغمالیوں کی غیر مشروط رہائی اور حماس کا مکمل غیر مسلح ہونا۔ اگر یہ شرائط پوری نہ ہوئیں تو غزہ شہر کو بھی وہی انجام دیکھنا پڑے گا جو رفح اور بیت حانون کا ہوا۔”
یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیلی فوج کئی ماہ سے غزہ میں عسکری کارروائیوں میں مصروف ہے، جس میں ہزاروں فلسطینی جان بحق ہو چکے ہیں اور لاکھوں افراد بے گھر ہوئے ہیں۔
حماس کا دوٹوک مؤقف: ریاست کے بغیر ہتھیار نہیں ڈالیں گے
اسرائیلی بیانات کے جواب میں حماس نے ایک سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
“اسرائیلی وزیر دفاع کے ریمارکس اس بات کا کھلا اعتراف ہیں کہ اسرائیل غزہ میں ایک منظم نسلی تطہیر میں ملوث ہے۔ ہم اس طرز عمل کو مسترد کرتے ہیں اور واضح کرتے ہیں کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر ہتھیار ڈالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔”
حماس کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ گروہ قیدیوں کی رہائی پر بات چیت کے لیے تیار ہے، لیکن جنگ بندی کی شرائط کو یکطرفہ طور پر قبول کرنا فلسطینی خودمختاری کی نفی ہوگی۔
بین الاقوامی ردعمل: امریکہ کی تشویش اور ٹرمپ کا سخت مؤقف
دوسری جانب امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس صورتحال پر ردعمل دیتے ہوئے حماس پر الزام عائد کیا کہ وہ یرغمالیوں کی رہائی کے بجائے تاوان پر توجہ دے رہی ہے۔
جمعے کے روز ایک بیان میں ٹرمپ نے کہا:
“یہ معاملہ ختم ہونا چاہیے۔ یہ سراسر بلیک میلنگ ہے اور اسے ختم ہونا ہوگا۔ اگر بھرپور کارروائی کی جائے تو شاید یرغمالی زیادہ محفوظ ہوں۔”
انہوں نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ زندہ قیدیوں کی تعداد میں مسلسل کمی آ رہی ہے، جو انسانی بحران کی سنگینی کو مزید بڑھا رہی ہے۔
غزہ کا انسانی بحران: خطرناک حد تک کشیدہ صورتحال
غزہ کی صورتحال بدستور نازک ہے۔ طبی ذرائع، اقوام متحدہ اور دیگر امدادی ادارے مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ خوراک، پانی، ادویات اور پناہ گاہوں کی شدید قلت ہے۔ اسرائیلی محاصرے، فضائی حملوں اور زمینی کارروائیوں کے نتیجے میں لاکھوں افراد محفوظ مقامات کی تلاش میں دربدر ہو چکے ہیں۔
یورپی یونین، اقوام متحدہ، اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اسرائیل پر زور دے چکی ہیں کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرے اور شہری آبادی کو تحفظ فراہم کرے۔ تاہم، اسرائیل کا مؤقف ہے کہ وہ حماس کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو روکنے کے لیے کارروائی پر مجبور ہے۔
سیاسی مبصرین کا تجزیہ: مذاکرات یا مکمل محاذ آرائی؟
سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے بیچ کشیدگی ایک بار پھر خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ دونوں فریق ایک دوسرے پر شدید الزامات لگا رہے ہیں، جبکہ زمینی حقائق بتا رہے ہیں کہ کوئی بھی فریق فوری طور پر پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔
بین الاقوامی برادری کے لیے یہ صورتحال ایک سفارتی چیلنج بن چکی ہے۔ اگر فوری طور پر جنگ بندی یا مذاکرات کی راہ ہموار نہ ہوئی تو غزہ کا مکمل انسانی بحران اور علاقائی عدم استحکام جنم لے سکتا ہے، جس کے اثرات مشرق وسطیٰ سے باہر بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی ایک نازک موڑ پر پہنچ چکی ہے، جہاں ایک طرف فوجی آپریشنز کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے اور دوسری جانب سیاسی بیانات صورتحال کو مزید بھڑکا رہے ہیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع کی دھمکی اور حماس کا شدید ردعمل اس بات کا اشارہ ہے کہ دونوں فریق اب ایک نئے اور شدید تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں، جس کے نتائج نہ صرف غزہ بلکہ پوری دنیا کے امن کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں۔