مودی حکومت کی بحرہند میں بڑھتی ہوئی عسکری سرگرمیاں: علاقائی سلامتی اور عالمی امن کے لیے نیا چیلنج
ان مشقوں کے پیچھے اصل مقصد بحرہند میں بھارت کی موجودگی کو وسعت دینا اور اپنی فوجی صلاحیتوں کا عملی مظاہرہ کرنا ہے
نئی دہلی (رپورٹ):
بھارت کی مودی حکومت کی جانب سے بحرہند میں عسکری سرگرمیوں میں تیزی اور جارحانہ پالیسیوں کا تسلسل خطے کے امن، سلامتی اور استحکام کے لیے ایک نہایت سنگین خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ جہاں ایک طرف دنیا بھر کی توجہ ماحولیاتی چیلنجز، معیشتی بحرانوں اور عالمی تنازعات کے حل پر مرکوز ہے، وہیں بھارت کی بحرہند میں تزویراتی اور عسکری پیش رفت نے ایک نیا محاذ کھول دیا ہے جس کے اثرات نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پورے انڈو-پیسیفک خطے پر مرتب ہو رہے ہیں۔
بھارتی بحریہ کی مشقیں: ظاہری دفاع یا خفیہ جارحیت؟
بھارتی اخبار دی پرنٹ کی رپورٹ کے مطابق حالیہ دنوں میں بھارتی بحریہ کی ویسٹرن نیول کمانڈ کی زیرنگرانی جاری بحری مشقوں کا بظاہر مقصد اپنی "آپریشنل تیاریوں” کا جائزہ لینا بتایا جا رہا ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ان مشقوں کے پیچھے اصل مقصد بحرہند میں بھارت کی موجودگی کو وسعت دینا اور اپنی فوجی صلاحیتوں کا عملی مظاہرہ کرنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان سرگرمیوں کا مقصد صرف دفاعی تیاری نہیں بلکہ طاقت کا مظاہرہ اور خطے میں بالادستی کا دعویٰ بھی ہے۔
بھارت کی پالیسی: اشتعال انگیزی یا تسلط پسندی؟
مودی حکومت کی خارجہ اور دفاعی پالیسیاں روز بروز جارحانہ رخ اختیار کر رہی ہیں۔ بھارت کی جانب سے بحرہند میں جدید جنگی بحری جہازوں، آبدوزوں اور میزائل سسٹمز کی تعیناتی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ مودی سرکار صرف دفاعی حدود تک محدود نہیں رہنا چاہتی بلکہ پورے خطے پر اپنی مرضی کا نظام مسلط کرنے کے عزائم رکھتی ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ بحرہند کو عالمی تجارت اور توانائی کی راہداریوں میں مرکزی حیثیت حاصل ہے، اور اس پر غلبہ حاصل کرنا بھارت کے اسٹریٹجک خوابوں کا حصہ بن چکا ہے۔ مگر یہ عمل نہ صرف بین الاقوامی سمندری قوانین کے منافی ہے بلکہ علاقائی طاقتوں کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے لا کر ایک بڑے تنازعے کا پیش خیمہ بھی بن سکتا ہے۔
خطے پر اثرات: امن یا بحران؟
بھارت کی جانب سے بڑھتی ہوئی عسکری سرگرمیوں نے خطے کے دیگر ممالک، خصوصاً پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش اور مالدیپ میں خدشات کو جنم دیا ہے۔ یہ ممالک پہلے ہی ماحولیاتی تبدیلیوں، معاشی دباؤ اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہیں، اور اب بحرہند میں طاقت کے توازن کو بگاڑنے والی بھارتی سرگرمیاں ایک نئے عدم تحفظ کی لہر پیدا کر رہی ہیں۔
پاکستانی ماہرین دفاع کا کہنا ہے کہ بھارت کی جنگی پالیسی خطے کے امن و استحکام کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت کی موجودہ قیادت نہ صرف اپنی سرحدوں کے اندر اقلیتوں کے خلاف سخت گیر پالیسیوں پر عمل پیرا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی جارحانہ عزائم کو آگے بڑھا رہی ہے۔
عالمی برادری کا کردار: خاموش تماشائی یا فعال ثالث؟
موجودہ صورتحال میں عالمی طاقتوں اور بین الاقوامی اداروں کی خاموشی بھی سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ اقوام متحدہ، جنوبی ایشیائی تنظیم سارک (SAARC) اور دیگر علاقائی و عالمی اداروں کو چاہیے کہ وہ اس بڑھتے ہوئے خطرے کا فوری نوٹس لیں اور بھارت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنی عسکری سرگرمیوں کو محدود کرے اور خطے کے امن کے لیے تعمیری مکالمے کی راہ اپنائے۔
بحرہند کا خطہ، جو کبھی باہمی تعاون اور معاشی ترقی کی امیدوں کا مرکز سمجھا جاتا تھا، اب طاقت کی کشمکش اور عسکری تسلط کی دوڑ کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ اگر اس بڑھتے ہوئے عسکری رجحان کو روکا نہ گیا تو مستقبل میں یہ علاقہ بڑے عالمی تصادم کا مرکز بن سکتا ہے۔
بین الاقوامی برادری، علاقائی قیادت اور خود بھارتی عوام پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مودی حکومت کی خطرناک پالیسیوں پر سوال اٹھائیں اور ایسے اقدامات کی حمایت کریں جو خطے کے امن، استحکام اور ترقی کی ضمانت بن سکیں۔
