
سی اے آر ای سی منصوبے میں 170 ارب کی مبینہ کرپشن: وزیر اعظم شہباز شریف نے این ایچ اے کے 9 افسران معطل کر دیے، اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل
یہ اسکینڈل نہ صرف این ایچ اے کی ساکھ کے لیے دھچکا ہے بلکہ حکومت پاکستان کے ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت پر بھی سوالیہ نشان بن چکا ہے
اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) — وزیر اعظم شہباز شریف نے نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) میں 170 ارب روپے کے سینٹرل ایشیا ریجنل اکنامک کوآپریشن (CAREC) فیز 3 منصوبے میں سنگین بے ضابطگیوں، جعلی ٹینڈرز، ملی بھگت اور مبینہ بدعنوانی کے الزامات پر سخت ایکشن لیتے ہوئے 9 سینئر افسران کو معطل کر دیا ہے، جبکہ اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جو ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرے گی۔
یہ اسکینڈل نہ صرف این ایچ اے کی ساکھ کے لیے دھچکا ہے بلکہ حکومت پاکستان کے ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت پر بھی سوالیہ نشان بن چکا ہے، خاص طور پر اس لیے کہ CAREC منصوبہ ایشیائی ترقیاتی بینک کی مالی معاونت سے جاری ہے اور اس میں عالمی سطح کی شفافیت کی توقع کی جاتی ہے۔
تحقیقاتی کمیٹی کا قیام اور دائرہ اختیار
وزیر اعظم ہاؤس سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق، CAREC فیز 3 معاہدے میں بدعنوانی کی شکایات اور بدنیتی پر مبنی فیصلوں کی مکمل جانچ کے لیے 5 رکنی اعلیٰ اختیاراتی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ اس کمیٹی کی سربراہی ریٹائرڈ وفاقی سیکریٹری محمد مشتاق احمد کریں گے، جب کہ دیگر ارکان میں:
سیکریٹری وزارتِ تجارت
این ایچ اے کے ریٹائرڈ ممبر مختار احمد درانی
چیف انجینئر (ریٹائرڈ) اکبر علی
پلاننگ کمیشن کے رکن
شامل ہیں۔
کمیٹی کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ:
این ایچ اے کے بلیک لسٹنگ کے موجودہ طریقہ کار کا جائزہ لے
تکنیکی بولیوں کے کھولنے کے وقت احتیاطی اقدامات پر نظرثانی کرے
شکایات کے ازالے کے عمل کی شفافیت اور غیر جانب داری کا تجزیہ کرے
منصوبے میں تاخیر کی وجوہات کا تعین کرے
آئندہ کے لیے پالیسی سفارشات مرتب کرے
کمیٹی ایک ہفتے کے اندر وزیر اعظم ہاؤس کو اپنی جامع اور قابلِ عمل رپورٹ پیش کرے گی۔
معطل کیے گئے افسران کی فہرست اور الزامات
نوٹیفکیشن میں جن افسران کو معطل کیا گیا ہے، ان میں نمایاں نام درج ذیل ہیں:
عاصم امین (ممبر انجینئرنگ)
امتیاز احمد کھوکھر (ممبر)
محمد طلحہ (ڈائریکٹر انجینئرنگ)
پروکیورمنٹ ڈپارٹمنٹ کے 4 دیگر افسران
سمیع الرحمٰن (حالیہ ریٹائرڈ ممبر) — وہ بھی انکوائری کا سامنا کر رہے ہیں
ان پر الزام ہے کہ انہوں نے CAREC منصوبے کے فیز 3 کے معاہدے میں ملی بھگت سے نااہل قرار دی گئی کمپنیوں کو غیر قانونی طور پر نوازا، ٹینڈرنگ میں بدنیتی کا مظاہرہ کیا اور جعلی کاغذات کے ذریعے منصوبہ مخصوص کمپنی کو دینے میں کردار ادا کیا۔
پارلیمانی تحفظات اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا ردعمل
وائس آف جرمنی کی تحقیقاتی رپورٹ اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اقتصادی امور ڈویژن (EAD) کی جانب سے بھی ان الزامات کی تصدیق ہو چکی ہے۔ کمیٹی نے این ایچ اے کو 2 روز کی مہلت دی ہے کہ وہ ٹھوس دستاویزی ثبوت فراہم کرے، بصورتِ دیگر معاہدے کی منسوخی اور کامیاب جوائنٹ وینچر (JV) کی نااہلی کی سفارش کی جائے گی۔
سینیٹ کمیٹی نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ جب این ایچ اے گزشتہ 4 ماہ سے مطلوبہ دستاویزات فراہم نہیں کر سکی، تو وزیر اعظم کی کمیٹی کس بنیاد پر نتائج تک پہنچے گی؟
تنازع کا مرکز: CAREC فیز 3 کا معاہدہ
CAREC فیز 3 کے چار حصے ہیں:
لاٹ 1: راجن پور تا جام پور (58 کلومیٹر)
لاٹ 2: جام پور تا ڈیرہ غازی خان (64 کلومیٹر)
لاٹ 3: ڈیرہ غازی خان تا ٹبی قیصرانی (112 کلومیٹر)
لاٹ 4: ٹبی قیصرانی تا ڈیرہ اسماعیل خان (96 کلومیٹر)
یہ معاہدہ ایک مشترکہ کمپنی (JV) کو دیا گیا جس میں NXCC، ڈائنامکس کنسٹرکٹرز، اور رستم ایسوسی ایٹس شامل ہیں۔ حیرت انگیز طور پر یہی JV دو سال قبل ایک اور منصوبہ بروقت مکمل نہ کرنے پر نااہل قرار دی گئی تھی، پھر بھی انہیں نیا معاہدہ دیا جانا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔
بدعنوانی کے مزید شواہد اور پچھلا ریکارڈ
سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کمیٹی میں انکشاف کیا کہ CAREC فیز 1 کے تحت شندور-گلگت روڈ منصوبہ بھی اسی کمپنی کو دیا گیا، حالانکہ یہ کمپنی اس سے قبل جعلی دستاویزات اور مہر کے استعمال پر نااہل قرار دی جا چکی تھی۔ انہوں نے کہا:
"یہ حیران کن ہے کہ ایک بار نااہل قرار دی گئی کمپنی کو دوبارہ اتنا بڑا منصوبہ کیسے دیا جا سکتا ہے؟”
سینیٹر کامل علی آغا نے معطل افسران کے خلاف باقاعدہ چارج شیٹ پیش نہ کرنے پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صرف نوٹیفکیشن کافی نہیں، مکمل قانونی کارروائی کی ضرورت ہے۔
این ایچ اے کا مؤقف
این ایچ اے کے چیئرمین شہریار سلطان نے کمیٹی کو بتایا کہ کچھ دستاویزات متعلقہ کمپنیوں سے اب تک موصول نہیں ہوئیں، جب کہ کچھ ریکارڈ وزارتِ مواصلات کو جمع کروا دیا گیا ہے۔ تاہم، سینیٹ کمیٹی اس وضاحت سے غیر مطمئن دکھائی دی اور این ایچ اے پر "اداروں اور پارلیمنٹ کو گمراہ کرنے” کا الزام بھی عائد کیا۔
نتیجہ: حکومت کے لیے امتحان، ساکھ داؤ پر
یہ معاملہ اب تک 5 مختلف اداروں بشمول قومی اسمبلی و سینیٹ کی کمیٹیاں، پی پی آر اے اور وزارتِ مواصلات کے زیرِ تفتیش ہے۔ اگر الزامات درست ثابت ہوتے ہیں تو یہ پاکستان کی انفراسٹرکچر پالیسی، بین الاقوامی قرض دہندگان کے اعتماد، اور ترقیاتی عمل کی شفافیت کے لیے شدید دھچکا ہو گا۔
وزیراعظم کی طرف سے کمیٹی کو ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی گئی ہے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اتنے وسیع پیمانے پر اسکینڈل کی شفاف تفتیش اور مکمل حقائق تک رسائی میں زیادہ وقت درکار ہوگا۔
عوامی مطالبہ: شفافیت، احتساب، اور اصلاحات
اس اسکینڈل کے بعد عوامی سطح پر بھی مطالبہ بڑھ رہا ہے کہ:
این ایچ اے میں مستقل شفافیت کا نظام متعارف کروایا جائے
ناقص کارکردگی یا کرپشن میں ملوث افسران کو عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا چاہیے
ٹینڈرز، بولی اور پروکیورمنٹ کے تمام مراحل کو ڈیجیٹل، شفاف اور عوامی نگرانی کے تحت لایا جائے
یہ معاملہ آنے والے دنوں میں ملک کے احتسابی نظام اور وزیراعظم شہباز شریف کی گورننس پالیسی کی سچائی کا ایک بڑا امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔