
اسلام آباد (خصوصی رپورٹ) — وفاقی حکومت نے وزارتِ داخلہ میں اعلیٰ سطح پر اہم انتظامی تبدیلی کرتے ہوئے ایک حاضر سروس فوجی افسر کو ایڈیشنل سیکریٹری (بی ایس-21) تعینات کر دیا ہے۔ یہ عہدہ روایتی طور پر سینئر سول بیوروکریٹس کے لیے مخصوص سمجھا جاتا رہا ہے، مگر موجودہ تقرری کو انسدادِ دہشت گردی کے اقدامات میں سول و عسکری ہم آہنگی کو فروغ دینے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
وفاقی کابینہ کی منظوری اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے پیر کے روز جاری کیے گئے نوٹیفکیشن کے مطابق، میجر جنرل نور ولی خان (ہلال امتیاز – ملٹری) کو وزارتِ داخلہ و نارکوٹکس کنٹرول ڈویژن میں ایڈیشنل سیکریٹری تعینات کیا گیا ہے۔ ان کی یہ تعیناتی سیکنڈمنٹ کی بنیاد پر تین سال کے لیے کی گئی ہے، جو فوری طور پر نافذالعمل ہوگی اور آئندہ احکامات تک برقرار رہے گی۔
حکومتی اقدام کا پس منظر
اس تقرری کا پس منظر جولائی 2025 میں اس وقت سامنے آیا جب وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے وزارت میں ایک حاضر سروس فوجی افسر کی شمولیت کا عندیہ دیا تھا۔ ان کا مؤقف تھا کہ انسدادِ دہشت گردی کے اقدامات میں سول آرمڈ فورسز اور فوج کے درمیان مربوط اور مؤثر ہم آہنگی کے لیے یہ فیصلہ ناگزیر ہو چکا ہے۔
وزارتِ داخلہ کے زیرِ انتظام کئی نیم فوجی اور سول آرمڈ فورسز کام کر رہی ہیں جن میں:
فرنٹیئر کور (ایف سی)
پاکستان رینجرز
پاکستان کوسٹ گارڈز
گلگت بلتستان اسکاؤٹس
فیڈرل کنسٹیبلری (حالیہ قائم کردہ)
یہ تمام ادارے ملک بھر میں دہشت گردی، شورش اور سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے میں فرنٹ لائن پر کام کر رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں، وزارتِ داخلہ میں عسکری نقطہ نظر اور انٹیلیجنس تجربہ رکھنے والے افسر کی موجودگی کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا جا رہا ہے۔
افسران کی تبدیلی: سہیل حبیب تاجک کو ہٹا دیا گیا
اس تقرری کے نتیجے میں پولیس سروس آف پاکستان (PSP) کے سینئر بیوروکریٹ سہیل حبیب تاجک کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ وہ ایڈیشنل سیکریٹری (ایڈمنسٹریشن) کے طور پر ڈیپوٹیشن پر خدمات انجام دے رہے تھے۔
ایک علیحدہ نوٹیفکیشن میں انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ فوری طور پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں رپورٹ کریں۔ تاہم، اب تک انہیں کوئی نیا قلمدان تفویض نہیں کیا گیا، جس پر بیوروکریسی کے حلقوں میں تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
وزارتِ داخلہ میں دیگر ایڈیشنل سیکریٹریز کے عہدوں پر تعینات افسران میں:
نذر محمد بزدار (ایڈیشنل سیکریٹری انٹرنل اینڈ فارنرز سیکیورٹی)
سلمان چوہدری (ایڈیشنل سیکریٹری بارڈر مینجمنٹ)
شامل ہیں۔
میجر جنرل نور ولی خان کا پس منظر
ذرائع کے مطابق، میجر جنرل نور ولی خان ایک تجربہ کار فوجی افسر ہیں جنہوں نے ماضی میں اہم عسکری اور انٹیلیجنس ذمہ داریاں انجام دی ہیں۔ ان کی تقرری کا مقصد وزارتِ داخلہ میں فیصلہ سازی کے عمل کو اسٹریٹجک سطح پر مستحکم بنانا اور انسدادِ دہشت گردی کے آپریشنز میں سول و عسکری ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔
فوجی حلقوں اور نیشنل سیکیورٹی اداروں میں ان کی ساکھ ایک پیشہ ور، نظم و ضبط کے پابند، اور فیصلوں میں تیزرفتار افسر کے طور پر جانی جاتی ہے۔ وہ نیشنل سیکیورٹی کی پیچیدہ نوعیت کے آپریشنز میں بھی شامل رہ چکے ہیں، اور ان کے پاس حساس نوعیت کے انٹیلیجنس امور میں فیصلہ سازی کا عملی تجربہ ہے۔
وزارتِ داخلہ میں مزید تبدیلیوں کا امکان
ذرائع کا کہنا ہے کہ میجر جنرل نور ولی خان کی تعیناتی صرف ایک آغاز ہے۔ وزارتِ داخلہ میں مزید انتظامی ردوبدل متوقع ہے تاکہ ادارہ جاتی فعالیت، کارکردگی، اور سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کی حکمت عملی کو مزید بہتر بنایا جا سکے۔
بعض رپورٹس کے مطابق، وزارت میں دیگر سینئر افسران کی تقرریوں اور تبادلوں پر بھی غور کیا جا رہا ہے، خاص طور پر ان شعبہ جات میں جو انسدادِ دہشت گردی، بارڈر مینجمنٹ، نارکوٹکس کنٹرول اور بین الاقوامی سیکیورٹی تعاون سے متعلق ہیں۔
سیاسی و انتظامی تجزیہ
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب وزارتِ داخلہ یا دیگر سول اداروں میں حاضر سروس فوجی افسران کو کلیدی عہدوں پر تعینات کیا گیا ہو۔ ماضی میں بھی ایسے فیصلے سیکیورٹی صورتِ حال کی نزاکت کے پیش نظر کیے جاتے رہے ہیں، تاہم سول بیوروکریسی کی جانب سے بعض اوقات ان پر تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔
بیوروکریٹک حلقوں میں سہیل حبیب تاجک کو اچھی شہرت حاصل تھی، اور ان کے ہٹائے جانے کو بعض تجزیہ کار "ادارہ جاتی توازن میں تبدیلی” کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ تاہم حکومتی ذرائع اس اقدام کو "مضبوط ریاستی ہم آہنگی اور نیشنل ایکشن پلان پر موثر عمل درآمد” کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔
سول و عسکری ہم آہنگی یا ادارہ جاتی دباؤ؟
وزارتِ داخلہ جیسے کلیدی ادارے میں حاضر سروس فوجی افسر کی تعیناتی کئی حوالوں سے اہم پیش رفت ہے۔ ایک طرف یہ دہشت گردی، بغاوت اور سرحدی خطرات جیسے سنگین چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک متفقہ قومی حکمتِ عملی کا اشارہ ہو سکتی ہے، تو دوسری طرف یہ سول بیوروکریسی اور فوج کے درمیان اختیارات کے توازن پر نئی بحث بھی چھیڑ سکتی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ میجر جنرل نور ولی خان کی تعیناتی وزارتِ داخلہ میں اصلاحات، ہم آہنگی اور سیکیورٹی پالیسیوں کی بہتری کے لیے کس حد تک مؤثر ثابت ہوتی ہے — یا یہ فیصلہ ادارہ جاتی کشمکش کا آغاز بنے گا۔