
اسلام آباد / کراچی / راولپنڈی (خصوصی نمائندہ) — فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے ملک کی معروف ہاؤسنگ سوسائٹی بحریہ ٹاؤن کے ساتھ منسلک حوالہ ہنڈی اور منی لانڈرنگ نیٹ ورک کے خلاف بڑا کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے۔ یہ کارروائی ملک میں مالیاتی شفافیت، غیر قانونی رقوم کی ترسیل اور بدعنوان عناصر کے خلاف جاری مہم کا اہم حصہ قرار دی جا رہی ہے۔
ایف آئی اے کے مطابق اب تک کی کارروائیوں کے دوران 17 مقدمات درج کیے جا چکے ہیں، جب کہ 13 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جن میں بحریہ ٹاؤن کے سینئر اسٹاف ممبران بھی شامل ہیں۔ ملزمان پر اربوں روپے کی غیر قانونی ترسیلات، کالے دھن کی صفائی (منی لانڈرنگ)، جعلی دستاویزات کی تیاری اور بین الاقوامی حوالہ ہنڈی نیٹ ورک کے ذریعے رقوم کی ترسیل کے الزامات ہیں۔
چھاپے، گرفتاریاں اور شواہد کی برآمدگی
ایف آئی اے کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور نیب کے ساتھ مشترکہ کارروائی کے دوران بحریہ ٹاؤن کے دفاتر پر چھاپے مارے گئے۔ ان چھاپوں کے دوران:
200 سے زائد فائلیں برآمد کی گئیں
ان فائلوں میں بدعنوان مالیاتی طریقوں، غیر قانونی فنڈز کی منتقلی، اور غیر علانیہ دولت کے شواہد موجود ہیں
نیٹ ورک کے ذریعے اربوں روپے بیرون ملک منتقل کیے گئے
نیٹ ورک کا تعلق بین الاقوامی حوالہ ایجنٹس اور مقامی فرنٹ مین کمپنیوں سے ہے
ایجنسی کا کہنا ہے کہ کارروائیوں میں خفیہ انٹیلیجنس، شکایات اور سابقہ تحقیقات کی روشنی میں مخصوص دفاتر اور افراد کو ہدف بنایا گیا، جس کے نتیجے میں اب تک دو بڑے حوالہ ہنڈی نیٹ ورکس کو مکمل طور پر ناکارہ بنایا جا چکا ہے۔
منی لانڈرنگ کا پورا نیٹ ورک بے نقاب
ابتدائی تفتیش کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے اندر کام کرنے والا یہ نیٹ ورک نہ صرف اندرونِ ملک بلکہ بیرونِ ملک سے بھی روابط رکھتا تھا۔ ذرائع کے مطابق:
رقوم غیر ظاہر شدہ ذرائع سے ریئل اسٹیٹ فائلوں کی خرید و فروخت کے ذریعے سفید کی جاتی تھیں
جعلی کمپنیوں اور اکاؤنٹس کے ذریعے بے نامی اثاثے خریدے گئے
کچھ رقوم کو بیرون ملک جائیدادوں اور بینک اکاؤنٹس میں منتقل کیا گیا
اوورسیز پاکستانیوں کے ذریعے بھی کالے دھن کی صفائی کا عمل جاری تھا
ذرائع بتاتے ہیں کہ بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ میں موجود کچھ عناصر اس غیر قانونی نظام کو تحفظ فراہم کر رہے تھے، اور کئی سال سے یہ نیٹ ورک خاموشی سے فعال تھا۔
اربوں کے اثاثے ضبط، مزید گرفتاریاں متوقع
ایف آئی اے کے مطابق اب تک کی تحقیقات میں اربوں روپے مالیت کے اثاثوں کی نشاندہی کی جا چکی ہے، جنہیں ضبط کر لیا گیا ہے۔ ان اثاثوں میں:
پراپرٹیز، گاڑیاں، پلاٹس، کمرشل یونٹس
بینک اکاؤنٹس میں موجود بڑی رقوم
کمپنیز کی ملکیت میں رجسٹرڈ سرمایہ
شامل ہیں۔
ایجنسی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا جا رہا ہے، اور مزید گرفتاریاں آئندہ چند روز میں متوقع ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس نیٹ ورک سے وابستہ چند بااثر شخصیات بھی ریڈار پر ہیں، جن کے خلاف شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں۔
ریئل اسٹیٹ سیکٹر پر کڑی نظر، قانون سازی کی ضرورت
حوالہ ہنڈی نیٹ ورکس کے انکشاف کے بعد ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں کالے دھن کے استعمال پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں پراپرٹی مارکیٹ کو منی لانڈرنگ کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ سمجھا جاتا رہا ہے، جہاں:
کیش ٹرانزیکشنز عام ہیں
خریداروں کی شناخت کی جانچ سخت نہیں
بے نامی جائیدادیں عام ہیں
ریگولیٹری نگرانی کمزور ہے
معاشی ماہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی گائیڈلائنز کے مطابق پراپرٹی سیکٹر کی ریگولیشن کو سخت کیا جائے اور ڈیجیٹل ٹریکنگ سسٹمز متعارف کروائے جائیں تاکہ رقوم کی اصلیت اور ٹرانزیکشنز کو ٹریس کیا جا سکے۔
بحریہ ٹاؤن کی خاموشی، قانونی ماہرین کا ردعمل
بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کی جانب سے اب تک اس معاملے پر کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ قانونی ٹیم متحرک ہو چکی ہے اور ایف آئی اے کے الزامات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر عدالت میں ایف آئی اے کے شواہد درست ثابت ہوئے، تو یہ کیس پاکستان میں ریئل اسٹیٹ کرپشن کے خلاف ایک مثالی مقدمہ بن سکتا ہے۔
نتیجہ: احتساب کا نیا باب یا مختصر کارروائی؟
ایف آئی اے کی اس وسیع کارروائی کو جہاں قومی احتساب کے عمل میں بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے، وہیں بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی کارروائیاں اگر مکمل شفافیت اور نتیجہ خیزی کے ساتھ انجام نہ دی جائیں تو ان کا فائدہ محدود رہ جاتا ہے۔
اب نگاہیں عدالتوں، پارلیمنٹ، اور ایف آئی اے کی آئندہ پیش رفت پر مرکوز ہیں کہ آیا یہ کیس مالیاتی بدعنوانی کے خلاف مؤثر نظیر بن پاتا ہے یا یہ بھی ماضی کی طرح سیاسی دباؤ اور مفاہمتوں کی نذر ہو جاتا ہے۔