
اسلام آباد کی نجی رہائشی اسکیم ڈی ایچ اے میں بارش کے دوران سابق کرنل اسحاق قاضی اور ان کی 25 سالہ بیٹی کا برساتی نالے میں بہہ جانا ایک افسوسناک المیہ بن کر سامنے آیا ہے۔ لیفٹیننٹ کرنل (ر) اسحاق قاضی کی لاش تو مل گئی، تاہم ان کی بیٹی تاحال لاپتہ ہے، اور ریسکیو ٹیمیں دریائے سواں اور ملحقہ نالوں میں تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔
یہ دلخراش واقعہ اقوامِ متحدہ کے "ورلڈ ڈراؤننگ پریوینشن ڈے” سے صرف تین دن پہلے پیش آیا، جس کا مقصد پانی میں ڈوبنے کے بڑھتے ہوئے عالمی مسئلے سے لوگوں کو آگاہ کرنا اور اس کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کی اپیل کرنا ہے۔
حادثہ یا انسانی غفلت؟ سینیٹر شیری رحمان کا مؤقف
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی کی چیئرپرسن، سینیٹر شیری رحمان نے اس واقعے کو محض حادثہ نہیں، بلکہ "انسانی غفلت کا نتیجہ” قرار دیا۔ ان کے مطابق ناقص منصوبہ بندی، موسمیاتی خطرات کے حوالے سے غفلت، اور بنیادی حفاظتی اقدامات کا فقدان ایسے سانحات کا سبب بن رہا ہے۔
انہوں نے اسلام آباد کے سید پور ویلج، کورنگ نالہ، اور ڈی ایچ اے میں پیش آنے والے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا:
"یہ صرف بارشیں نہیں، یہ انسانی کوتاهی کا نتیجہ ہے۔ ناقص انفراسٹرکچر، بغیر جائزے کے تعمیرات، اور بروقت حفاظتی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔”
مسلسل واقعات، سوالات اور غفلت کی نشانیاں
سابق کرنل اور ان کی بیٹی کے واقعے سے پہلے بھی اسلام آباد اور راولپنڈی میں درجنوں افراد پانی میں ڈوب کر جان کی بازی ہار چکے ہیں:
13 جولائی: سیکٹر ای-16 ون میں 19 سالہ ذوالقرنین فقیر تالاب میں ڈوب کر جاں بحق۔
9 جولائی: 22 سالہ محمد محسن کورنگ نالے میں ڈوب گئے، لاش دریائے سواں سے ملی۔
جون: ایک گاڑی راولپنڈی میں سیلابی ریلے میں بہہ گئی، خاتون ٹیچر انعم بشیر اور ٹیکسی ڈرائیور حسین معاویہ جاں بحق۔
سوات: دریا کے کنارے 18 افراد کا پورا خاندان سیلابی ریلے کی نذر۔
یہ تمام واقعات شہری علاقوں میں پیش آئے، جہاں نسبتاً بہتر انفراسٹرکچر اور اربن پلاننگ کی توقع کی جاتی ہے، لیکن عملی طور پر صورتحال مختلف ہے۔
اقوامِ متحدہ اور عالمی ادارہ صحت کی تنبیہ
اقوامِ متحدہ نے 2021 میں ہر سال 25 جولائی کو "ورلڈ ڈراؤننگ پریوینشن ڈے” کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا۔ 2024 میں شائع ہونے والی عالمی ادارہ صحت (WHO) کی رپورٹ کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 3 لاکھ سے زائد افراد پانی میں ڈوب کر جان گنواتے ہیں، جن میں سے اکثریت ترقی پذیر ممالک سے تعلق رکھتی ہے۔
ماحولیاتی ماہرین کی رائے: مسئلہ صرف بارش نہیں
ماحولیاتی ماہر آصف شجاع کے مطابق یہ سب کچھ پیشگی روکا جا سکتا تھا۔ ان کے مطابق:
"ہر ترقیاتی منصوبے سے پہلے انوائرنمنٹل امپیکٹ اسیسمنٹ (EIA) کرنا قانونی تقاضا ہے۔ اگر یہ جائزہ نہیں لیا گیا تو تعمیرات کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ افسوس یہ ہے کہ پاکستان میں اکثر ایسا نہیں ہوتا۔”
انہوں نے جاپان کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ وہاں اربن فلڈنگ کا مسئلہ ختم کرنے کے لیے زیرزمین واٹر اسٹوریج سسٹمز بنائے گئے، جنہوں نے شدید بارش کے باوجود شہری علاقوں کو بچا لیا۔