بین الاقوامیاہم خبریں

تیانجن میں شی جن پنگ اور نریندر مودی کی تاریخی ملاقات، تعلقات میں نئی پیش رفت کی امید

علاقائی کشیدگی کے بعد دو جوہری طاقتوں کا مکالمہ، امن کی جانب ایک اہم قدم

تیانجن (چین) / بیجنگ / نئی دہلی – چین کے صدر شی جن پنگ اور بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے تیانجن میں ہونے والے ایک علاقائی سربراہی اجلاس کے دوران دو طرفہ ملاقات کی، جو دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات میں ممکنہ بہتری کی جانب ایک غیر معمولی اور مثبت پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔

یہ ملاقات ایسے وقت پر ہوئی ہے جب چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعات، اقتصادی مقابلے اور جغرافیائی تناؤ نے گزشتہ چند برسوں میں دونوں ملکوں کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے، بالخصوص لداخ کے علاقے میں 2020 کے پرتشدد جھڑپوں کے بعد۔


ملاقات کی تفصیلات: گرمجوش ماحول میں اہم معاملات پر بات چیت

چینی وزارتِ خارجہ اور بھارتی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ مشترکہ اعلامیے کے مطابق، ملاقات ایک "مثبت، تعمیری اور کھلے ماحول” میں ہوئی، جس میں دونوں رہنماؤں نے خطے میں امن، اقتصادی ترقی، ماحولیاتی چیلنجز اور دو طرفہ تنازعات پر تفصیل سے گفتگو کی۔

اعلامیے کے مطابق:

  • دونوں رہنماؤں نے سرحدی کشیدگی کو سفارتی اور عسکری مکالمے کے ذریعے حل کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔

  • اقتصادی روابط کی بحالی، تجارتی توازن، اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

  • موسمیاتی تبدیلی، دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششوں اور علاقائی امن کے لیے "پرامن ہمسائیگی” کے اصولوں پر زور دیا گیا۔


پس منظر: کشیدہ تعلقات کی تاریخ اور حالیہ تناؤ

چین اور بھارت کے تعلقات کئی دہائیوں سے نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان:

  • 1962 کی جنگ

  • ڈوکلام تنازع (2017)

  • لداخ میں گلوان وادی کی جھڑپیں (2020)
    نے تعلقات کو شدید متاثر کیا۔

2020 میں گلوان وادی میں ہونے والی جھڑپ میں دونوں اطراف کے فوجیوں کی ہلاکت نے تعلقات میں تاریخی سرد مہری پیدا کر دی۔ اس کے بعد دونوں ملکوں نے کئی سفارتی اور عسکری مذاکرات کیے، مگر اعتماد کی کمی برقرار رہی۔


اقتصادی پہلو: تعاون یا مسابقت؟

اگرچہ چین اور بھارت کے درمیان سیاسی کشیدگی رہی ہے، لیکن تجارتی تعلقات میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے لیے اہم شراکت دار رہے ہیں۔

  • 2023 میں چین بھارت کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر تھا۔

  • دونوں ممالک کے درمیان 135 ارب ڈالر سے زائد کا سالانہ تجارتی تبادلہ ہوا۔

  • بھارت میں متعدد چینی کمپنیاں ٹیکنالوجی، اسمارٹ فونز، اور انفراسٹرکچر کے شعبے میں سرگرم عمل ہیں۔

مگر حالیہ برسوں میں بھارت نے چینی سرمایہ کاری پر سخت پالیسی اپنائی، اور کئی چینی ایپس پر پابندی بھی عائد کی۔ موجودہ ملاقات کو اس جمود کو توڑنے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔


علاقائی اور عالمی تناظر میں اہمیت

یہ ملاقات نہ صرف چین اور بھارت کے لیے، بلکہ پورے جنوبی ایشیا اور بحرالکاہل خطے کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے، جہاں امریکہ، روس، جاپان، اور آسٹریلیا جیسے ممالک بھی اپنی موجودگی رکھتے ہیں۔

بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ:

"اگر چین اور بھارت اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر تعاون کی راہ اپناتے ہیں تو یہ ایشیا کی معاشی ترقی اور سیاسی استحکام کے لیے انقلابی قدم ہو گا۔”


ردعمل: عالمی برادری اور میڈیا کی نظر میں

بین الاقوامی میڈیا نے اس ملاقات کو "Surprise Breakthrough” اور "Step Toward De-escalation” جیسے الفاظ سے تعبیر کیا ہے۔
اقوام متحدہ، یورپی یونین اور روس نے بھی اس پیش رفت کا خیر مقدم کیا ہے، جبکہ امریکہ نے محتاط خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

"تمام علاقائی قوتوں کو کشیدگی کم کرنے اور مکالمے کو ترجیح دینی چاہیے۔”


آگے کا راستہ: کیا مستقل بہتری ممکن ہے؟

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ ملاقات ابتدائی برف پگھلانے کا باعث بن سکتی ہے، لیکن پائیدار بہتری کے لیے باقاعدہ مذاکرات، باہمی اعتماد سازی، اور زمینی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ:

  • سرحدی کشیدگی کے حل کے بغیر مکمل اعتماد ممکن نہیں

  • میڈیا اور عوامی سطح پر موجود قوم پرستی بھی رکاوٹ بن سکتی ہے

  • تاہم اقتصادی مفادات، عالمی دباؤ، اور ماحولیاتی چیلنجز دونوں ملکوں کو قریب لا سکتے ہیں


ایک ملاقات، کئی امکانات

چینی صدر شی جن پنگ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی تیانجن میں ملاقات ایک تاریخی لمحہ ہے، جو اگرچہ فوری طور پر بڑے نتائج نہ دے سکے، مگر یہ ضرور ثابت کرتا ہے کہ مذاکرات کا دروازہ کھلا ہے۔

اس وقت جب دنیا ماحولیاتی بحران، معاشی غیر یقینی صورتحال اور جغرافیائی کشیدگی کا شکار ہے، دو بڑی ایشیائی طاقتوں کا مکالمہ دنیا بھر کے لیے ایک مثبت پیغام ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button