
افغانستان میں تباہ کن زلزلہ: سینکڑوں ہلاکتیں، طالبان حکومت کی عالمی برادری سے فوری امداد کی اپیل
امدادی ٹیمیں لینڈ سلائیڈنگ، ٹوٹی سڑکوں اور غیر محفوظ راستوں کی وجہ سے متاثرہ علاقوں تک پہنچنے میں شدید مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں
کابل / کنڑ / ننگرہار: افغانستان ایک بار پھر ایک تباہ کن قدرتی آفت کی زد میں آ گیا، جہاں ملک کے مشرقی حصے میں شدید زلزلے کے باعث سینکڑوں انسانی جانیں ضائع ہو گئیں، ہزاروں مکانات ملبے کا ڈھیر بن گئے اور بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ افغان طالبان حکومت کے مطابق اب تک سب سے زیادہ جانی نقصان صوبہ کنڑ میں ہوا ہے، جہاں 610 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جب کہ ننگرہار میں بھی کم از کم 12 اموات کی تصدیق کی گئی ہے۔
امدادی کارروائیاں دشوار، پہاڑی علاقوں اور خراب موسم نے رکاوٹ ڈال دی
طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ امدادی سرگرمیوں کو دشوار گزار پہاڑی راستے، موسلادھار بارشیں اور خراب موسمی حالات بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ امدادی ٹیمیں لینڈ سلائیڈنگ، ٹوٹی سڑکوں اور غیر محفوظ راستوں کی وجہ سے متاثرہ علاقوں تک پہنچنے میں شدید مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی امور کے رابطہ دفتر (UNOCHA) نے انتباہ جاری کیا ہے کہ حالیہ بارشوں کے باعث لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ مزید بڑھ گیا ہے، جس سے کئی اہم راستے ناقابل رسائی ہو چکے ہیں۔
طالبان حکومت کی اپیل: "ہمیں فوری امداد کی ضرورت ہے”
افغان طالبان کی وزارت صحت کے ترجمان شرافت زمان نے پریس کو بتایا:
"یہاں بہت سے لوگ جان سے گئے ہیں، ہزاروں گھر تباہ ہو چکے ہیں۔ ہمارے پاس وسائل محدود ہیں، اور ہمیں فوری بین الاقوامی امداد کی اشد ضرورت ہے۔”
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ کنڑ سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے، اور امدادی ٹیمیں مسلسل کام کر رہی ہیں۔
فوجی ریسکیو آپریشن جاری، 40 پروازوں کے ذریعے لاشیں اور زخمی منتقل
افغان وزارت دفاع کے مطابق:
فوجی ریسکیو ٹیمیں متاثرہ علاقوں میں پہنچ چکی ہیں
اب تک 420 زخمیوں اور لاشوں کو 40 سے زائد پروازوں کے ذریعے طبی مراکز میں منتقل کیا جا چکا ہے
کئی متاثرہ دیہات میں کچی اینٹوں کے مکانات مکمل تباہ ہو چکے ہیں
امدادی کارکن کوشش کر رہے ہیں کہ متاثرین کو ملبے سے نکال کر قریبی اسپتالوں یا کیمپس میں منتقل کیا جائے۔
طالبان حکومت عالمی تنہائی کا شکار، محدود بین الاقوامی ردعمل
افغانستان میں طالبان کے 2021 کے اقتدار میں آنے کے بعد سے غیر ملکی حکومتیں محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ افغان وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ:
"تاحال کسی غیر ملکی حکومت نے براہ راست مدد کی پیشکش نہیں کی۔”
تاہم بعد میں:
چین نے اعلان کیا کہ وہ افغانستان کی ضرورت کے مطابق امداد فراہم کرے گا
بھارت نے ایک ہزار خیمے اور امدادی سامان بھجوانے کا اعلان کیا ہے
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے کہا کہ UN فوری امدادی اقدامات کے لیے تیار ہے
پوپ فرانسس (Pope Francis) نے زلزلے میں ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا اور عالمی برادری سے متاثرین کے ساتھ یکجہتی کی اپیل کی
طالبان حکومت پہلے ہی بحرانوں میں گھری ہوئی
یہ زلزلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب طالبان حکومت:
غیر ملکی امداد کی شدید کمی کا شکار ہے
پڑوسی ممالک سے افغان مہاجرین کی واپسی جیسے بحران سے نبرد آزما ہے
بے روزگاری، صحت عامہ، اور تعلیم جیسے مسائل کے حل کے لیے درکار وسائل کی قلت کا سامنا کر رہی ہے
ان حالات میں یہ قدرتی آفت نہ صرف انسانی جانوں کا نقصان لا چکی ہے بلکہ حکومت کی گورننس اور امدادی صلاحیتوں پر بھی سوالات اٹھا رہی ہے۔
بین الاقوامی برادری کا امتحان
مبصرین کے مطابق یہ زلزلہ بین الاقوامی برادری کے لیے ایک بڑا امتحان ہے۔ اگرچہ طالبان حکومت کو عالمی سطح پر رسمی طور پر تسلیم نہیں کیا گیا، تاہم انسانی بحران کی نوعیت ایسی ہے کہ امداد کو سیاسی رکاوٹوں سے بالا تر ہونا چاہیے۔
نتیجہ: افغانستان میں انسانی المیہ، فوری امداد کی ضرورت
افغانستان میں آنے والا یہ زلزلہ گزشتہ تین سالوں میں تیسرا بڑا اور جان لیوا زلزلہ ہے، جس نے ایک بار پھر ملک کو انسانی بحران کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں محدود رسائی، وسائل کی کمی اور عالمی تنہائی جیسے چیلنجز نے حالات کو مزید نازک بنا دیا ہے۔
اب یہ عالمی برادری پر منحصر ہے کہ وہ انسانیت کے ناطے افغانستان کی مدد کے لیے آگے بڑھے، بصورت دیگر ہزاروں متاثرہ خاندان طویل عرصے تک بے یار و مددگار رہ سکتے ہیں۔



