
بیجنگ/اسلام آباد (خصوصی نمائندہ): وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف نے منگل کے روز بیجنگ میں روسی فیڈریشن کے صدر ولادیمیر پیوتن سے ایک اہم ملاقات کی، جس میں دوطرفہ تعلقات، علاقائی و عالمی صورتحال، اور مختلف شعبہ جات میں تعاون کے فروغ پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ یہ ملاقات چین میں جاری ایک اعلیٰ سطحی بین الاقوامی اجلاس کے موقع پر ہوئی۔
ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات باہمی اعتماد، احترام اور گرمجوشی پر مبنی ہیں، اور ان تعلقات کو مزید وسعت دینے کی گنجائش اور ضرورت دونوں موجود ہیں۔
آستانہ سے بیجنگ تک: تعلقات میں تسلسل اور استحکام
دونوں رہنماؤں نے 2024 میں قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں ہونے والی اپنی سابقہ ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے اس کے بعد پیدا ہونے والی پیشرفت اور تعاون میں اضافے پر اطمینان کا اظہار کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے واضح کیا کہ پاکستان روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو "انتہائی اہم” سمجھتا ہے اور انہیں اسٹریٹیجک اور اقتصادی شراکت داری میں تبدیل کرنے کا خواہاں ہے۔
وزیراعظم کا وژن: تجارت، توانائی، تعلیم اور ٹیکنالوجی میں تعاون
وزیراعظم نے ملاقات کے دوران روس کے ساتھ تجارت، توانائی، زراعت، سرمایہ کاری، دفاع، مصنوعی ذہانت، تعلیم، ثقافت اور عوامی سطح پر تبادلے کے شعبوں میں تعاون کو بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ تمام شعبے پاکستان کی ترقی کی ترجیحات میں شامل ہیں، اور روس کے ساتھ شراکت داری ان اہداف کے حصول میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
انہوں نے اس بات پر بھی خوشی کا اظہار کیا کہ عالمی سطح پر پاکستان اور روس کے مؤقف میں "قابل ذکر ہم آہنگی” پائی جاتی ہے، جو کہ اقوام متحدہ سمیت دیگر بین الاقوامی فورمز پر دونوں ممالک کے تعاون کو مزید مضبوط بناتی ہے۔
پاکستان اسٹیل مل اور کنیکٹیویٹی پراجیکٹس: دوستی کی علامت
وزیراعظم نے خاص طور پر کراچی میں واقع پاکستان اسٹیل مل کی بحالی کو پاک روس اقتصادی شراکت داری کا "فلیگ شپ منصوبہ” قرار دیا، جس میں روس کی ممکنہ سرمایہ کاری کو آئندہ نسلوں کے لیے دونوں ممالک کی دوستی کی علامت قرار دیا۔ انہوں نے "کنیکٹیویٹی پراجیکٹس” یعنی علاقائی مواصلاتی و تجارتی راہداریوں میں روس کی شمولیت کو بھی خطے کے لیے فائدہ مند قرار دیا۔
صدر پیوتن کا مثبت ردعمل، تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جانے کے عزم کا اظہار
روسی صدر ولادیمیر پیوتن نے وزیراعظم شہباز شریف کے خیالات سے مکمل اتفاق کیا اور اس بات پر زور دیا کہ روس پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان "تعلقات میں نمایاں بہتری اور وسعت” آئی ہے اور یہ رفتار مستقبل میں بھی جاری رہنی چاہیے۔
انہوں نے اس بات کو سراہا کہ پاکستان اور روس شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) جیسے پلیٹ فارمز پر فعال کردار ادا کر رہے ہیں، اور اس تعاون سے خطے میں امن، استحکام اور ترقی کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
علاقائی و عالمی امور پر تفصیلی گفتگو
دونوں رہنماؤں نے ملاقات کے دوران کئی اہم عالمی اور علاقائی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا، جن میں جنوبی ایشیا کی مجموعی صورتحال، افغانستان کی سیکیورٹی اور انسانی صورتحال، مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی، اور یوکرین کے تنازع جیسے موضوعات شامل تھے۔
وزیراعظم اور صدر پیوتن نے کثیرالجہتی سفارت کاری کی اہمیت پر زور دیا اور اس بات پر اتفاق کیا کہ عالمی نظام میں توازن قائم رکھنے کے لیے علاقائی طاقتوں کو مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔
کشمیر اور فلسطین جیسے دیرینہ تنازعات پر بات چیت
وزیراعظم شہباز شریف نے کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت اور مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کی ضرورت پر زور دیا، جب کہ دونوں رہنماؤں نے فلسطین کے مسئلے پر بھی گفتگو کی، جو اس وقت عالمی سطح پر انسانی حقوق کی ایک بڑی آزمائش بنا ہوا ہے۔ دونوں رہنماؤں نے عالمی ضمیر کو بیدار کرنے اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کو یقینی بنانے کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔
وزیراعظم کو دورۂ روس کی دعوت
ملاقات کے اختتام پر روسی صدر ولادیمیر پیوتن نے وزیراعظم شہباز شریف کو روس کا سرکاری دورہ کرنے کی دعوت دی، جسے وزیراعظم نے شکریے کے ساتھ قبول کیا۔ یہ دعوت دونوں ممالک کے درمیان سیاسی روابط کو مزید مضبوط بنانے کی ایک اہم علامت سمجھی جا رہی ہے۔
تجزیہ: پاک روس تعلقات میں نئے باب کا آغاز؟
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور روس کے تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں، جس میں اقتصادی تعاون، دفاعی اشتراک، اور سفارتی ہم آہنگی کلیدی کردار ادا کریں گے۔ توانائی کے بحران سے نبرد آزما پاکستان کے لیے روس کے ساتھ گیس اور پیٹرولیم معاہدے اہم سنگِ میل ہو سکتے ہیں، جب کہ روس کو بھی جنوب ایشیا میں ایک قابل اعتماد شراکت دار کی تلاش ہے۔
نتیجہ: ایک متوازن خارجہ پالیسی کی جانب قدم
وزیراعظم شہباز شریف اور صدر پیوتن کی ملاقات کو نہ صرف دو طرفہ تعلقات کے فروغ کے تناظر میں بلکہ پاکستان کی کثیرالجہتی اور متوازن خارجہ پالیسی کی عملی مثال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اگر ان ملاقاتوں کے نتیجے میں ٹھوس معاہدے اور سرمایہ کاری سامنے آتی ہے، تو یہ دونوں ممالک کے لیے ایک نئی راہ متعین کر سکتی ہے۔