پاکستان پریس ریلیزاہم خبریں

ہندوستان سے آنے والے سیلابی پانی میں مردہ لاشیں بھی بہہ آئیں، وزیر دفاع کا انکشاف — سیلاب کے خدشات برقرار، نکاسی آب نظام کی ناکامی پر کڑی تنقید

ایسا منظر اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ سیلابی پانی نہ صرف انسانی جانوں کو بہا کر لایا بلکہ اس کے ساتھ کوڑا کرکٹ، مردہ جانور اور گندگی بھی تھی،

اسلام آباد: پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک اہم انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ بارشوں اور بھارت کی جانب سے دریاؤں میں پانی چھوڑنے کے بعد پاکستان میں داخل ہونے والے سیلابی ریلوں میں مردہ لاشیں، جانوروں کی باقیات اور کوڑے کے ڈھیر بھی شامل تھے، جنہوں نے متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اور نکاسی آب کے عمل کو شدید متاثر کیا۔

اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ حالیہ مون سون بارشوں اور سرحد پار سے آنے والے پانی کی وجہ سے پاکستان کے متعدد اضلاع شدید متاثر ہوئے، اور اگرچہ اس وقت پانی کا بہاؤ معمول پر آ چکا ہے، تاہم مزید ایک سیلابی ریلے کا خطرہ اب بھی موجود ہے، جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔


سیلابی پانی میں لاشیں: ایک غیر معمولی منظر

خواجہ آصف نے بتایا کہ مقامی افراد کی جانب سے تصویری اور عینی شہادتوں کے ذریعے تصدیق کی گئی ہے کہ سرحدی علاقوں میں لوگوں نے سیلابی پانی میں انسانی لاشوں کو بہتے ہوئے دیکھا۔ ان کے مطابق یہ لاشیں غالباً بھارتی علاقے سے بہہ کر آئی ہیں، جو مون سون کے باعث ہونے والی تباہی کی شدت کو ظاہر کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا:

"ایسا منظر اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ سیلابی پانی نہ صرف انسانی جانوں کو بہا کر لایا بلکہ اس کے ساتھ کوڑا کرکٹ، مردہ جانور اور گندگی بھی تھی، جس سے میونسپل اداروں کو صفائی اور نکاسی آب میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔”


بھارت کی جانب سے دو مرتبہ پیشگی اطلاع، مگر چیلنج برقرار

وزیر دفاع نے تصدیق کی کہ بھارت نے پاکستان کو دریاؤں میں پانی چھوڑنے سے متعلق دو بار مطلع کیا تھا، تاہم پانی کی مقدار، بہاؤ کی شدت اور دیگر عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے مکمل تیاری ممکن نہیں بنائی جا سکی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دریائی پانی کے بہاؤ سے متعلق اطلاع رسانی کا نظام بعض اوقات بروقت اور مؤثر نہیں رہتا، جس سے دونوں اطراف کے سرحدی علاقوں کو خطرات لاحق ہوتے ہیں۔


"1976 کے بعد بدترین بارشیں” — خواجہ آصف

وزیر دفاع نے حالیہ موسم کو "غیر معمولی اور شدید خطرناک” قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ:

"اس سال ہونے والی طوفانی بارشوں نے گزشتہ کئی دہائیوں کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ ایسی صورتحال آخری مرتبہ 1976 میں دیکھی گئی تھی۔ بدقسمتی سے ہم نے وقت سے پہلے احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کیں، اور قدرتی آبی گزرگاہوں پر ہونے والی تجاوزات کو بھی نہیں ہٹایا گیا۔”


سیالکوٹ کی صورتحال: تین بڑے نالے گندگی سے بھرے

اپنے آبائی ضلع سیالکوٹ کی حالت زار کا ذکر کرتے ہوئے خواجہ آصف نے سخت تنقید کی اور کہا کہ:

"کم از کم تین بڑے نالے مکمل طور پر گندگی اور رکاوٹوں سے بھرے ہوئے تھے۔ متعلقہ حکام کو وقت پر وارننگ دی گئی تھی، لیکن انہوں نے نظر انداز کیا۔ نتیجتاً شہر کے مختلف علاقوں میں نکاسی آب کا نظام مکمل طور پر بیٹھ گیا۔”

انہوں نے کہا کہ متعلقہ اداروں نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں، اور اب جب پانی گھروں اور گلیوں میں کھڑا ہے، تب "ہنگامی اقدامات” کے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔


نکاسی آب کا نظام: ہنگامی بنیادوں پر بہتری کی ضرورت

وزیر دفاع نے زور دیا کہ اگر ہم مستقبل میں ایسی آفات سے بچنا چاہتے ہیں تو نکاسی آب کے نظام کو فوری اور ہنگامی بنیادوں پر بہتر بنانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ:

"یہ صرف بارش کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ شہری منصوبہ بندی، نکاسی آب کی پائیدار پالیسی، اور میونسپل کارکردگی کا نچوڑ ہے۔ اگر ہم نے ابھی اصلاحات نہ کیں تو مستقبل میں اس سے بھی زیادہ تباہی ہو سکتی ہے۔”


سیلاب کے ممکنہ خطرات برقرار

خواجہ آصف نے کہا کہ حالیہ بارشوں کے باوجود ابھی موسمی سلسلہ ختم نہیں ہوا، اور مزید سیلابی ریلوں کا خطرہ موجود ہے۔ انہوں نے NDMA، PDMA، میونسپل اداروں اور ضلعی انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر صفائی، نکاسی آب، اور لوگوں کی محفوظ مقامات پر منتقلی کے انتظامات کریں۔


نتیجہ: ہنگامی اقدامات اور دیرپا اصلاحات کی ضرورت

پاکستان کو ہر سال سیلابی صورتِ حال کا سامنا رہتا ہے، لیکن اس بار کی شدت، غیر معمولی بارشوں اور سرحد پار سے آنے والے سیلابی پانی نے انتظامی صلاحیتوں کی قلعی کھول دی ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کے انکشافات اور تنبیہات کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ ایسی انسانی اور ماحولیاتی تباہی سے بچا جا سکے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button