
جوڑا سُرخ فقیروں والا …..حیدر جاوید سید
چھ دہائیوں کا ساتھ ہے دونوں ایک دوسرے کے عادی ہیں اس لئے ایک دوسرے کو برداشت بھی کرتے ہیں۔
ہمارے چار اور عجیب سی صورتحال ہے سوال لوگوں کی آنکھوں میں رقصاں ہیں لیکن کریں کس سے ؟ تین چار دن قبل پنجاب کی خاتون وزیراطلاعات نے پریس بریفنگ میں جو انتہائی نامناسب الفاظ بولے کل انہوں نے اس پر معذرت کرتے ہوئے ایک دو سوال بھی لوگوں کے سامنے رکھے سوال ویسے درست ہیں ۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جب سیاسی شعور کی جگہ بت پرستی لے لے تو اس سے سبھی متاثر ہوتے ہیں مجھے پتہ نہیں ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ ہم ہمیشہ سے ہی بند گلی میں کھڑے ہیں جہاں شور وغل بہت ہے۔ دھکے ہیں اور بے سروپا بلکہ بے سُرے نعروں کے شور سے سر پھٹا جارہاہے مگر لوگ ہیں کہ اس بند گلی سے نکلنے کے لئے نکاسی کا راستہ تلاش کرنے کی بجائے ایک دوسرے کو دھکے دئیے جارہے ہیں۔
فقیر راحموں کا کہنا ہے کہ
”آج کیا ہم تو ہمیشہ سے بند گلی میں ہی رہ رہے ہیں۔ ہم نسل در نسل اسی فضا میں جینے بسنے کے عادی ہیں‘ یہی فضا اور صورتحال ہمیں مرغوب ہے“۔
یہ فقیر راحموں بھی عجیب ہے۔
اس کے بھاشنوں سے اللہ بچائے۔
چھ دہائیوں کا ساتھ ہے دونوں ایک دوسرے کے عادی ہیں اس لئے ایک دوسرے کو برداشت بھی کرتے ہیں۔
زندگی کے جھمیلے بہت ہیں۔ اتنے کہ اب کچھ معاملات تو واٹس ایپ پر طے ہونے لگے۔
کیا زمانہ تھا کبھی خط لکھے جاتے تھے۔ 1970ءکی دہائی میں جوان ہوئی نسل تو خط بھی نثری نظم کے انداز میں لکھتی تھی۔
خلیل جبران کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ جبران کی نثر کا جادو اب بھی کم نہیں ہوا۔ حبیب دہلوی سے تبسم لطیف تک اور چند دیگر نے عربی اور انگریزی سے اردو میں باکمال تراجم کئے۔ ہماری نسل کا ایک حصہ جبران کو پڑھ کر نثر سمجھ پایا۔
ایک حصےکو نسیم حجازی مرغوب ہوئے۔
رجعت پسندوں کو اب بھی وہی مرغوب ہیں۔ تلوار‘ گھوڑا‘ ویرانہ‘ نخلستان‘ دم آخر ایک کافر حسینہ جو گھوڑا سوار پر فدا ہوئی۔
بہت سال ہوتے ہیں جب سندھی زبان کے عہدساز ادیب نسیم کھرل مرحوم نے کہا تھا
”مجھے حیرانی ہے کہ ہمارے ادیب خود کو اپنی تاریخ سے جوڑنے کی بجائے ایسا ادب لکھ رہے ہیں جس کا اس مٹی اور تہذیب سے کوئی تعلق نہیں“۔
تبھی طالب علم نے ان کی خدمت میں عرض کیا
”مذہبی جذبات بھڑکانے سے جعلی تاریخ زیادہ فروخت ہوتی ہے“۔
ساڑھے چار پونے پانچ عشروں بعد نجانے نسیم کھرل کی یادوں نے کیوں دستک دے ڈالی۔ سندھ کے مٹی سے تخلیق ہوئے نسیم کھرل نے کمال کے افسانے لکھے۔ ایک پوری دہائی اس نے سندھی نوجوانوں کے دلوں پر راج کیا پھر موت کا ذائقہ چکھ کر رخصت ہوگیا۔
اچھا ویسے ہم نے اپنی تاریخ‘ ثقافت اور مٹی سے خود کو جوڑا کب؟ ہمارے یہاں
اٹھتہر سال سےتو مسلم امہ کا” انڈہ پراٹھا” فروخت ہورہا ہے مگر کیا تاریخ صرف اٹھتہر سال کی ہے؟
کم ازکم میرا جواب نفی میں ہے۔
متحدہ ہندوستان کے بٹوارے سے معرض وجود میں آنے والی دونوں ریاستیں بھارت اور پاکستان اس تاریخ کے نئے باب ضرور ہیں‘ نئی تاریخ نہیں۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ آٹھ نو برس قبل کی ایک صبح سوشل میڈیا پر ایک دوست نے دہلی کے فیروز شاہ سٹیڈیم کا نام ارون جیٹلی سٹیڈیم رکھے جانے پر ہندوستان کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کا خیال ہے کہ مسلمان بادشاہ کے نام پر سٹیڈیم کا نام تبدیل کرنا تاریخ سے زیادتی ہے اور ہندووں کی مسلم دشمنی کا منہ بولتا ثبوت۔
"مجھے اپنے وہ شہر اور محلے یاد آگئے جنہیں ہم کب کا "مسلمان بنا چکے۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمان ہوں‘ ہندو‘ سکھ یا کوئی اور سبھی کا خمیر اسی مٹی سے اُٹھا ہے
ہر دوطرف سبھی ایک جیسے ہیں تنگ نظر کج فہم اپنے اصل سے کٹے ہوئے۔
معاف کیجئے گا کچھ سقیل قسم کی باتیں ہو رہی ہیں۔ سیاست کے بازار کا بھاوں بہت تیز ہے۔
خبریں لاتعداد لیکن ان پر طبع آزمائی کو دل نہیں کر رہا۔
فقیر راحموں نے کاندھا ہلاتے ہوئے کہا
” شاہ جھوٹ تو نہ بولو تم لکھنا تو چاہتے ہو مگر حالات کے ڈر سے آنکھیں چرا رہے ہو”۔
آپ اس کی باتوں میں ہرگز نہ آئیں۔ میں بھی اب اس کی کوئی بہت زیادہ نہیں سنتا۔
ہم تاریخ کی بات کر رہے تھے۔ چند دن قبل ایک جگہ عرض کیا کہ اپنی تاریخ سے کٹے زمین زادوں کو بالآخر ایک دن سوچنا پڑے گا کہ ہمارا عرب ، ایران وتوران اور افغانستان کی تاریخ وتہذیب سے کوئی تعلق نہیں؟۔
ایک دوست یہ الفاظ لے اُڑے اور پھر ایک صاحب نے لمبا چوڑا بھاشن دے ڈالا۔ ان بھاشن بازوں کو اللہ ہی سمجھائے تو سمجھائے۔
میں تو ان سطور میں تواتر کےساتھ لکھتا چلا آرہا ہوں نصاب تعلیم کو ازسرنو ترتیب دیجئے۔
ہماری آئندہ نسلوں کو اپنی تاریخ وتہذیب اور اپنے ہیروز سے روشناس کروائیے۔
مغل بادشاہ تھے یا سلاطین دہلی یا حملہ آور وہ بس حکمران تھے اور حملہ آور۔
انسانی سماج کے ارتقا اور علوم کی ترویج کےلئے ان کی رتی برابر بھی خدمات نہیں۔
مجھ طالب علم سے اکثر نوجوان سوال کرتے ہیں ہم کسے پڑھیں؟
جواباً عرض کرتا ہوں” صوفی شعراءاور ان کے حالات زندگی سے آگاہی حاصل کیجئے بطور خاص، شاہ لطیف‘ رحمن بابا‘ حمزہ شنواری‘ شاہ حسین‘ بلھے شاہ‘ سچل سرمست‘ خواجہ غلام فرید‘ میاں محمد بخش‘ خوشحال خان خٹک‘ سلطان باہو اور مست توکلی کےساتھ نصیر گل۔ لے دےکر ہمارے پاس یہی ہیں یا پھر علی عباس جلالپوری ہیں‘ سبط حسن ہیں۔ اقبال وفیض ہیں۔ مرشد جی ایم سید ہیں۔ شیخ ایاز‘ مہر عبدالحق‘ ”
نوجوانوں کو جواب تو عرض کر دیتا ہوں پھر ایک سوال خود مجھے کچوکے بھرتا ہے۔
اٹھتہر سالوں میں ہمارے پاس سبط حسن‘ علی عباس جلالپوری‘ فیض، جی ایم سید وشیخ ایاز کے علاوہ ہے کیا؟ محض چند حوالے وہ بھی ناول کی شناخت پر۔
جب بھی اس سوال کا جواب تلاش کرنے لگتا ہوں فقیر راحموں بہت مذاق اُڑاتا ہے۔
بہت ادب کےساتھ یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ٹھنڈے دل سے اسی مسئلہ پر غور کرنا ہوگا۔
پدرم سلطان بود کے زعم سے نجات بہت ضروری ہے۔ بغداد وغرناطہ یا اندلس ودمشق کی دانش کے قصے بہت ہوگئے۔ ہماری اجتماعی دانش کا چہرہ کون ہے۔ یہی نہیں ہماری تاریخ کیا ہے؟‘
جغرافیے تو ٹوٹتے بنتے رہتے ہیں مگر تاریخ تو اپنے تسلسل میں ہی آگے بڑھتی ہے۔
اپنے پڑھنے والوں سے معذرت بات کہاں سے شروع ہوئی اور کس سمت نکل گئی۔ لیکن یہ باتیں بھی غور طلب ہیں۔ ہم میں سے کتنے لوگ زرق خان‘ احمد خان کھرل‘ دیوان مول راج‘ ہوش محمد شیدی کو جانتے ہیں؟
نہیں جانتے تو قصور کس کا ہے؟
پچھلی نسلوں اور خود ہمارا بلکہ ہم سے زیادہ اس ریاست کا جسے خود کوئی احساس نہیں۔ کیا ریاست خود یہ چاہتی ہے کہ سماج فکری طور پر بنجر رہے تاکہ کاروبار حیات چلتا رہے؟
سادہ سا جواب تو ”ہاں“ میں ہے۔
ان لمحوں شاہ حسینؒ کی یادوں نے دستک دی۔ وہ کہتے ہیں
”یہ میرا سرخ جوڑا فقیروں والا ہے‘ کوئی بھی میرے حال کا محرم نہیں‘ کس کو جا کر اپنا حال سناوں‘ خوف دامن گھیر رہتا ہے‘ دلوں کے بھید سے وہی واقف ہے۔ لوگ زندگی کے فریب میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ زندگی سمجھ میں آجائے تو زندگی سنور جائے۔“
ایک بات اور عرض کردوں وہ یہ کہ جب کوئی یہ کہتا ہے کہ ہمارے آبا بت شکن تھے اور ہم ان کے وارث ہیں تو بہت ہنسی آتی ہے اس ہنسی کیلئے ہم میں اور فقیر راحموں میں میثاق جمہوریت ہے
عجیب بات ہے نا ہم میں سے ہرشخص نے ایک سے زائد بت آنکھوں اور سینوں میں سجارکھے ہیں محض سجا ہی نہیں رکھتے بلکہ انہیں دیوانہ وار پوجتے ہیں لیکن وارث بت شکنوں کے ہیں
معاف کیجے گا یہ جو ہمارے چار اور نفسا نفسی اور بت پرستی کا دوردورہ ہے
ہمارے ذہنوں کے کھیتوں میں یہی فصلیں کاشت ہوتی ہیں جو کاشت کریں گے وہی کاٹیں اور کھائیں گے
حرفِ آخر یہ ہے کہ سیلاب کی زد میں آئے ملک میں بھارتی آبی جارحیت کا چورن فروخت کرنے میں سب ایک دوسرے پر سبقت لیجانے میں پیش پیش ہیں اپنے کج ننگ اور نیچر دشمنی پر غور کرنے کو کوئی بھی تیار نہیں کل شب فقیر راحموں کہنے لگا
شاہ جی یہ جو آبادی میں بے لگام اضافہ جاری و ساری ہے یہ بھی نیچر سے جنگ ہی ہے میں نے پلٹ کر کہا یار فقیر ہم اسے جنگ کی بجائے "گوریلہ وار ” کہہ سکتے ہیں ؟
وہ تب سے منہ پھیلائے ہوئے ہے ناراض ہے آج صبح کی بلیک کافی میں شریک ہونے سے انکار کردیا اس نے