
سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی کے ساتھ
وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے اپنی سماجی رابطہ کاری (ایکس) پوسٹ میں شدید اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی آدھی سے زیادہ بیوروکریسی نے پرتگال میں جائیدادیں خرید لیں اور یورپی شہریت حاصل کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ انہوں نے ان افسران کو "نامی گرامی مگرمچھ” قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ یہ افراد اربوں روپے کی بدعنوانی کے ذریعے آرام سے ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں. مثلاً انہوں نے کہا کہ ایک قریبی بیوروکریٹ نے بیٹیوں کی شادی کے لیے 4 ارب روپے ‘سلامی’ وصول کیے
ان الزامات پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور نیب نے ردعمل دیتے ہوئے دعویٰ مسترد کر دیا کہ ان کے پاس ایسے کسی بھی الزامات یا تفتیش کا کوئی شواہد یا ریکارڈ موجود نہیں
خواجہ آصف نے بعد میں کہا کہ وہ خود انکوائری شروع کر رہے ہیں اور اگر انہیں ٹھوس ثبوت ملے تو وہ ذمہ دار بیوروکریٹس کے نام بھی سامنے لائیں گے
پاکستانی سیاست میں یہ کوئی نئی بات نہیں کہ حکومت کے اپنے ہی اراکین کبھی کبھار ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو بظاہر اپوزیشن کے بیانیے سے ہم آہنگ دکھائی دیتی ہیں۔ مگر حالیہ دنوں میں وفاقی وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے جو طرزِ کلام اختیار کیا ہے، وہ محض روایتی بیانات سے بڑھ کر ایک سیاسی بیانیہ بنتا جا رہا ہے – ایک ایسا بیانیہ جو نہ صرف بیوروکریسی بلکہ اراکینِ اسمبلی، حکومتی پالیسیاں اور خود حکومتی نظام پر سوال اٹھاتا ہے۔
"مالی فحاشی” کے عنوان سے پارلیمانی عہدیداروں کی تنخواہوں میں اضافے پر تنقید
جون 2025 میں حکومت نے اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، چیئرمین سینیٹ اور دیگر اعلیٰ پارلیمانی عہدیداروں کی ماہانہ تنخواہوں اور مالی مراعات میں قابل ذکر اضافہ کیا۔ خواجہ آصف نے اسے شدید تنقید کے ساتھ "مالی فحاشی” قرار دیا، اور کہا کہ عوام کی عزت و آبرو ان تنخواہوں کے ذریعے ہی سنبھلی ہے
مجموعی صورتحال کیا ہے؟ خلاصہ درج ذیل ہے:
موضوع | خواجہ آصف کا موقف | ردعمل / صورتِ حال |
---|---|---|
بیوروکریسی پر الزامات | آدھی بیوروکریسی نے پرتگال میں جائیدادیں خریدیں، شہریت کی کوشش | اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور نیب نے ان الزامات کی تردید کی |
کرپشن اور احتساب | خود انکوائری اور نام منظر عام پر لانے کا اعلان | تاحال حقیقی شواہد یا تحقیقات کی پیش رفت سامنے نہیں آئی |
مالیاتی پالیسی | پارلیمانی حاضرین کی تنخواہیں "مالی فحاشی” ہیں | تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا، دفاعی موقف سامنے آیا |
خواجہ آصف کا موقف: اندر سے بولنے والی اپوزیشن؟
خواجہ آصف نے حالیہ ہفتوں میں ایک کے بعد ایک ایسے بیانات دیے ہیں جنہوں نے حکومت کے حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ کبھی وہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ X (ٹوئٹر) پر بیوروکریسی کو "مگرمچھ” قرار دیتے ہیں، تو کبھی پارلیمان میں اراکینِ اسمبلی کی شاہانہ مراعات کو "مالی فحاشی” کا نام دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ:
"آدھی سے زیادہ بیوروکریسی پرتگال میں جائیدادیں خرید چکی ہے اور یورپی شہریت کے حصول کی تیاری کر رہی ہے۔ یہ افسران اربوں روپے ہڑپ کر کے ریٹائرمنٹ کی پُرتعیش زندگی گزار رہے ہیں۔”
انہوں نے الزام لگایا کہ بیوروکریسی پر کوئی احتسابی نظام نہیں، اور 78 برس میں اس طبقے کو قانون کے کٹہرے میں لانے کی کوئی ٹھوس کوشش نہیں کی گئی۔
مراعات پر تنقید: اراکینِ اسمبلی کو بھی نہیں بخشا
چند ماہ قبل خواجہ آصف نے اراکینِ اسمبلی اور سینیٹ کی تنخواہوں و مراعات میں اضافے کو "عوام کی مشکلات کے منہ پر طمانچہ” قرار دیا تھا۔ انہوں نے کہا:
"جب ملک میں مہنگائی عروج پر ہو، عوام دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہوں، ایسے میں اربوں روپے کی مراعات محض ‘مالی فحاشی’ ہے۔”
بلدیاتی نظام پر تنقید اور گورننس کے سوالات
دو روز قبل قومی اسمبلی سے خطاب میں انہوں نے واضح کہا کہ:
"ہمارے ملک میں بلدیاتی ادارے بے دست و پا ہیں۔ پنجاب میں تو ہیں ہی نہیں۔ ہم بلدیاتی اداروں کو سیاسی مقاصد کے ٹول کے طور پر استعمال کرتے ہیں، نہ کہ عوامی خدمت کے لیے۔”
سیالکوٹ واقعہ اور بیانات میں شدت
سیالکوٹ میں ایک اعلیٰ سرکاری افسر کی گرفتاری کے بعد خواجہ آصف کے بیانات میں مزید شدت آ گئی۔ اگرچہ گرفتاری اور ان کے تعلق کے درمیان براہ راست ربط ثابت نہیں ہو سکا، لیکن اس واقعے کے فوراً بعد ان کے لہجے میں تلخی آ گئی، جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ شاید یہ ذاتی یا علاقائی سطح پر جاری کشمکش کا نتیجہ ہے۔
نواز شریف سے ملاقات اور سیاسی قیاس آرائیاں
رائیونڈ میں نواز شریف سے ان کی حالیہ ملاقات اور اس کی تصویر کے اجرا نے صورتحال کو مزید پرمعنی بنا دیا۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ خواجہ آصف اندرونِ خانہ پارٹی پالیسیوں سے نالاں ہیں یا پنجاب حکومت کے رویے سے ناخوش ہیں، اور وہ اپنی جماعت کے اندر اپنی سیاسی پوزیشن کو دوبارہ مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ثبوت کہاں ہیں؟ بیوروکریسی کا ردعمل اور تنقید
بیوروکریسی کی طرف سے ان کے الزامات کی تردید کر دی گئی ہے۔ ایک اجتماعی، بے نامی ردعمل میں کہا گیا کہ یہ الزامات بے بنیاد ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور نیب کی جانب سے بھی واضح کیا گیا کہ ان کے پاس ایسے کسی کرپشن اسکینڈل یا غیر ملکی اثاثوں کی کوئی مصدقہ معلومات نہیں ہیں۔
تجزیہ کار دانیال احمد کے مطابق:
"اگر خواجہ آصف کے الزامات میں صداقت ہے تو وہ باقاعدہ حکومتی پلیٹ فارم پر ثبوت فراہم کریں۔ بصورت دیگر، ایسے بیانات حکومتی اداروں پر عوامی اعتماد کو مزید مجروح کرتے ہیں۔”
رضا رومی: بیانیہ یا پالیسی؟
معروف تجزیہ کار رضا رومی کا کہنا ہے کہ:
"خواجہ آصف نے بیوروکریسی پر انگلی اٹھا کر ایک اہم بحث چھیڑ دی ہے، لیکن اگر وہ واقعی اصلاحات چاہتے ہیں تو انہیں بیانات سے آگے بڑھ کر پالیسی سازی میں کردار ادا کرنا ہوگا۔”
اندرونی اختلافات کی جھلک؟
ریلوے کے وزیر حنیف عباسی نے خواجہ آصف کے بیانات پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا:
"جسے حکومت پسند نہیں، وہ اپوزیشن میں چلا جائے۔”
یہ بیان واضح کرتا ہے کہ حکومت کے اندرونی حلقوں میں خواجہ آصف کے بیانات کو ناراضی یا اختلاف کے اظہار کے طور پر لیا جا رہا ہے، اور ان کے طرزِ عمل کو "پارٹی لائن” کے خلاف سمجھا جا رہا ہے۔
تجزیہ: کیا خواجہ آصف کا بیانیہ محض شور ہے یا تبدیلی کی تمہید؟
خواجہ آصف کے بیانات میں صرف تنقید نہیں بلکہ ایک مکمل نقطۂ نظر موجود ہے جو شفافیت، احتساب اور ادارہ جاتی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ تاہم، مسئلہ یہ ہے کہ ان کے بیانات اب تک نہ کسی پالیسی میں ڈھلے ہیں، نہ ہی کسی پارلیمانی یا کابینہ اجلاس میں رسمی تجویز کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔
اگر وہ واقعی بیوروکریسی اور مراعات یافتہ طبقے کے خلاف سنجیدہ اصلاحات چاہتے ہیں تو انہیں اپنی حیثیت بطور وفاقی وزیر استعمال کرتے ہوئے مؤثر قانون سازی یا پالیسی سفارشات کا آغاز کرنا چاہیے۔
نتیجہ: بیانیے کا وزن کب ہوگا؟
فی الحال، خواجہ آصف کی تنقید نے حکومت کو غیر معمولی دباؤ میں ڈال دیا ہے، اور ان کے بیانات سیاسی، انتظامی اور عوامی حلقوں میں مسلسل بحث کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ آنے والے دنوں میں واضح ہو جائے گا کہ یہ بیانات محض سیاسی علامتی اظہار تھے، یا وہ واقعی نظام میں تبدیلی کی سنجیدہ کوشش کا پیش خیمہ بنیں گے۔
سامعین کا ردِ عمل اور تجزیہ
سوشل میڈیا پر بعض عوامی اور تجزیاتی حلقوں نے کہا: "اگر وزیر دفاع کے پاس واقعی ٹھوس ثبوت ہیں، تو وہ قانونی راستہ اختیار کریں نہ کہ سوشل میڈیا پر الزامات عائد کریں”
اسی طرح، کامے جن کے مطابق بیوروکریسی کے خلاف عوامی اعتماد مجروح ہو رہا ہے، ایسے عوامل کے باعث مؤثر حکومت اور اداروں میں شفافیت کے لیے جامع اصلاحات ضروری ہیں