
برلن: تقریباً ایک دہائی قبل، یعنی 2015 میں، جرمنی نے ایک تاریخی اور جرات مندانہ فیصلہ کیا تھا جس کے تحت اس نے شام کی خانہ جنگی اور دیگر عالمی بحرانوں کے باعث لاکھوں مہاجرین کے لیے اپنے دروازے کھول دیے تھے۔ اس وقت تقریباً دس لاکھ مہاجرین نے جرمنی کا رخ کیا، جن میں زیادہ تر شام، عراق، افغانستان، اور افریقی ممالک سے آئے تھے۔ آج ایک دہائی بعد، اس فیصلے کے سماجی، سیاسی، معاشی اور ثقافتی اثرات جرمنی اور یورپ بھر میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔
انس مودامانی، ایک شامی نوجوان، جو 2015 میں خانہ جنگی سے بچ کر جرمنی پہنچا تھا، اس مہم کے اہم گواہوں میں سے ایک ہے۔ وہ آج برلن کے متنوع ضلع نیوکلن میں رہائش پذیر ہے اور آئی ٹی کے شعبے میں کام کرتا ہے۔ انس اپنے تجربات کے بارے میں بات کرتے ہوئے یاد کرتے ہیں کہ وہ خطرناک سفر تھا جس میں کئی لوگ جان کی بازی ہار گئے۔
"جب میں آج کے سفر کے بارے میں سوچتا ہوں، تو میں اسے دوبارہ نہیں کروں گا — یہ بہت خطرناک تھا۔ مجھے جو یاد ہے وہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ مر گئے، وہ ڈوب گئے… اس کشتی پر بہت زیادہ لوگ تھے۔” انس کا کہنا ہے کہ وہ 17 سال کی عمر میں شام چھوڑ کر یورپ کی طرف نکلے، ایک طویل اور دشوار گزار سفر سے گزرے جس میں لبنان، ترکی، یونان، بلقان، ہنگری، اور آسٹریا شامل تھے۔
میرکل کا جرات مندانہ فیصلہ اور اس کا اثر
2015 کے موسم گرما میں جرمن چانسلر انجیلا میرکل نے مہاجرین کے لیے اپنی سرحدیں کھولنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کو عالمی سطح پر خوش آمدید کہا گیا، لیکن جرمنی کے اندر مختلف ردعمل بھی سامنے آئے۔ میرکل کے اس اقدام نے یورپی یونین کی مہاجر پالیسیوں پر گہرے اثرات ڈالے اور یورپ بھر میں مہاجرین کے لیے نیا راستہ کھولا۔
انس مودامانی نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ وہ جب جرمنی پہنچے تو میونخ کے لوگ ان کا پرتپاک استقبال کر رہے تھے، کھانا اور پانی تقسیم کر رہے تھے اور مہاجرین کے لیے مکمل مدد فراہم کر رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں، "یہ میرا زندگی کا بہترین لمحہ تھا۔”
اس دور کی مشہور تصویر میں انس ایک سیلفی میں نظر آتے ہیں، جو انہوں نے برلن کے مضافاتی علاقے اسپینڈو میں انجیلا میرکل کے ساتھ لی تھی، جہاں وہ ایک پناہ گزین مرکز کا دورہ کر رہی تھیں۔ یہ تصویر ایک علامتی لمحہ بن گئی جو اس وقت کے جرمن عوام کے جذبے اور مہاجرین کی حمایت کو ظاہر کرتی ہے۔
جرمن معاشرے میں مہاجرین کی شمولیت
اب 10 سال بعد، جرمنی میں تقریباً لاکھوں مہاجرین نے اپنی نئی زندگی بنالی ہے۔ بہت سے مہاجرین نے زبان سیکھی، تعلیم حاصل کی اور کام کی دنیا میں قدم رکھا۔ انس مودامانی جیسے لوگ، جو ایک بار خطرناک سفر سے گزر کر آئے تھے، اب آئی ٹی کے شعبے میں کام کر رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر لاکھوں فالوورز رکھتے ہیں۔
یہ مہاجرین جرمن معیشت، ثقافت، اور سماجی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ خاص طور پر بڑے شہروں جیسے برلن، ہیمبرگ، اور میونخ میں مہاجرین نے اپنے کاروبار شروع کیے اور مقامی کمیونٹیز کے ساتھ میل جول بڑھایا۔
سیاسی محاذ پر مہاجرین کا معاملہ
لیکن اس دوران جرمنی کو سیاسی چیلنجز کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ انتہائی دائیں بازو کی پارٹی، الٹرنیٹیو فار جرمنی (AfD) نے مہاجرین کے خلاف عوامی جذبات کو بھڑکانے کا فائدہ اٹھایا اور ملک کے سب سے بڑے اپوزیشن گروپ کی حیثیت حاصل کر لی۔
نئی حکومت کے چانسلر فریڈرک مرز نے میرکل کی مہاجر پالیسیوں میں بڑی تبدیلیاں کیں۔ انہوں نے پناہ گزینوں کی تعداد محدود کرنے اور سرحدی تحفظ کو سخت بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے، جن میں مزید سرحدی محافظوں کی تعیناتی اور پناہ گزینوں کی واپسی کو آسان بنانے کی کوششیں شامل ہیں۔
اس سال، جب شام میں بشار الاسد کی حکومت کمزور ہوئی، تو AfD کی رہنما ایلس ویڈل نے شامی مہاجرین کو جرمنی واپس جانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ اب شام میں حالات بہتر ہو گئے ہیں۔ یہ سیاسی رویہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ مہاجرین کا معاملہ آج بھی جرمن سیاست میں کشیدگی کا باعث ہے۔
مہاجرین کی روزمرہ زندگی اور چیلنجز
مہاجرین کے لیے جرمنی میں زندگی آسان نہیں رہی۔ بہت سے مہاجرین کو سماجی یکجہتی، روزگار کے مواقع، اور تعلیمی مواقع حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ کئی بار ان پر نسلی اور مذہبی تعصب بھی ظاہر ہوا۔ انس مودامانی جیسے نوجوانوں نے ان رکاوٹوں کو عبور کرنے کے لیے سخت محنت کی ہے، اور اب وہ جرمن معاشرے میں ایک مضبوط مقام رکھتے ہیں۔
انس نے بتایا، "میں نے جنگ کی وجہ سے شام چھوڑا تھا، اور شروع میں میرا کوئی خاندان یا دوست نہیں تھا۔ مگر جرمنی نے مجھے ایک موقع دیا، اور میں نے اپنی محنت سے زندگی کو بہتر بنایا۔”
جرمنی کے لیے آگے کا راستہ
جرمنی اور یورپ اب بھی مہاجرین کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے مختلف حکمت عملیوں پر کام کر رہے ہیں۔ چانسلر مرز نے مائیگریشن پالیسی میں اصلاحات کیں تاکہ مستقبل میں ایسے بحرانوں کا بہتر جواب دیا جا سکے۔
اس کے باوجود، انس مودامانی اور دیگر مہاجرین کے لیے یہ دہائی ایک نئی زندگی کی شروعات تھی، جس نے ان کے مستقبل کے دروازے کھول دیے۔ جرمنی کی یہ کہانی اس بات کی مثال ہے کہ مہاجرین کو موقع دیا جائے تو وہ ملک کی ترقی اور ثقافت کا حصہ بن سکتے ہیں۔
خلاصہ:
2015 میں جرمنی کے دروازے کھولنے کا تاریخی فیصلہ ایک ہجرت کا عظیم تجربہ تھا جس نے لاکھوں مہاجرین کی زندگیوں کو بدل دیا۔ ایک دہائی بعد، اس فیصلے کے سماجی، سیاسی، اور اقتصادی اثرات جرمن معاشرے میں آج بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔ مہاجرین نے اپنی محنت اور حوصلے سے جرمنی میں اپنا مقام بنایا ہے، جبکہ ملک سیاسی، سماجی اور قانونی مسائل سے بھی نمٹ رہا ہے تاکہ مستقبل میں مہاجرین کی آمد کو بہتر طریقے سے منظم کیا جا سکے۔