
دنیا بھر میں مکمل چاند گرہن کا شاندار نظارہ — پاکستان، سعودی عرب، ایشیا، افریقہ اور یورپ میں ‘خونی چاند’ آسمان پر جلوہ گر
"یہ گرہن دو مراحل پر مشتمل تھا اور اس کا کل دورانیہ 5 گھنٹے 27 منٹ رہا۔ مملکت کے مختلف علاقوں میں ہزاروں افراد نے کھلے میدانوں، پارکوں اور گھروں کی چھتوں سے یہ مظہر دیکھا۔"
اسلام آباد / ریاض / بیجنگ / قاہرہ / لندن (نیوز ڈیسک + اے ایف پی)
دنیا بھر میں فلکیات کے شائقین اتوار کی شب ایک نایاب فلکیاتی مظہر — مکمل چاند گرہن کا مشاہدہ کر کے حیرت اور مسرّت سے سرشار ہو گئے۔
پاکستان، سعودی عرب، انڈیا، چین، افریقہ، یورپ کے مختلف حصوں اور مغربی آسٹریلیا میں لاکھوں لوگوں نے آسمان پر ‘خونی چاند’ یعنی Blood Moon کا نظارہ کیا، جو اپنی سرخی مائل گہری رنگت اور غیر معمولی مدت کی وجہ سے دنیا بھر میں توجہ کا مرکز بن گیا۔
پاکستان میں چاند گرہن کا مکمل اور واضح نظارہ
پاکستان میں یہ مکمل چاند گرہن رات 8 بج کر 28 منٹ پر شروع ہوا، جب چاند زمین کی سایہ دار پٹی میں داخل ہوا۔
خلائی تحقیق کے قومی ادارے سپارکو (SUPARCO) کے مطابق رات 10 بج کر 30 منٹ پر گرہن نے اپنی انتہاء کو پہنچا، اور چاند مکمل طور پر زمین کے سائے میں چھپ گیا۔ اس دوران آسمان پر چاند کی رنگت گہری سرخ میں تبدیل ہو گئی، جسے خونی چاند (Blood Moon) کہا جاتا ہے۔
فلکیاتی ماہرین کے مطابق یہ ایک غیر معمولی فلکیاتی لمحہ تھا، جو پاکستان کے بیشتر علاقوں — اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ اور گلگت — میں صاف موسم کی بدولت واضح طور پر دیکھا گیا۔
سعودی عرب میں طویل ترین چاند گرہن، برسوں بعد نایاب مشاہدہ
سعودی عرب میں برسوں بعد یہ فلکیاتی مظہر سب سے طویل مکمل چاند گرہن کی شکل میں دیکھا گیا۔
انجینیئر ماجد ابو زہرہ کے مطابق:
"یہ گرہن دو مراحل پر مشتمل تھا اور اس کا کل دورانیہ 5 گھنٹے 27 منٹ رہا۔ مملکت کے مختلف علاقوں میں ہزاروں افراد نے کھلے میدانوں، پارکوں اور گھروں کی چھتوں سے یہ مظہر دیکھا۔”
عرب میڈیا نے اسے "عشرے کا طویل ترین مکمل چاند گرہن” قرار دیا۔
خونی چاند: سرخ رنگت کی سائنسی وضاحت
شمالی آئرلینڈ کی کوئنز یونیورسٹی بیلفاسٹ کے فلکیاتی ماہر ریان ملیگن نے "خونی چاند” کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا:
"جب سورج، زمین اور چاند ایک ہی قطار میں آ جاتے ہیں، تو زمین سورج کی روشنی کو چاند تک پہنچنے سے روک دیتی ہے۔ لیکن زمین کے ماحول سے سرخ روشنی منتشر ہو کر چاند تک پہنچتی ہے، جس کی وجہ سے چاند ہمیں خوفناک گہری سرخ رنگت میں دکھائی دیتا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ نیلی روشنی کی شعاعیں زیادہ آسانی سے بکھر جاتی ہیں جبکہ سرخ روشنی زمین کے ماحول سے زیادہ مؤثر انداز میں گزر کر چاند تک پہنچتی ہے۔
عالمی فلکیاتی نظارہ: ایشیا، افریقہ اور یورپ میں مکمل، امریکہ محروم
اے ایف پی کے مطابق یہ مکمل چاند گرہن براعظم ایشیا، افریقہ اور یورپ کے اکثر حصوں سے دیکھا گیا۔
بھارت اور چین میں ناظرین بہترین مقام پر موجود تھے۔
مشرقی افریقہ اور مغربی آسٹریلیا میں بھی خونی چاند کا نظارہ کیا گیا۔
یورپ کے بیشتر حصوں میں گرہن جزوی طور پر اور صرف مختصر وقت کے لیے دیکھا جا سکا، جب چاند شام کے وقت طلوع ہوا۔
شمالی و جنوبی امریکہ کے خطے اس نظارے سے محروم رہے۔
عوامی دلچسپی اور سائنسی تحقیق کا مرکز
چاند گرہن کی اس نایاب جھلک نے نہ صرف عوام بلکہ فلکیات کے ماہرین کو بھی سائنس، تحقیق اور سیکھنے کا ایک موقع فراہم کیا۔ دنیا بھر میں ماہرین نے اسے دوربینوں، کیمروں اور سافٹ ویئرز کی مدد سے ریکارڈ کیا۔
سوشل میڈیا پر بھی "Blood Moon” اور "#LunarEclipse” جیسے ہیش ٹیگز ٹرینڈ کرتے رہے، اور لاکھوں افراد نے اپنی تصاویر، ویڈیوز اور تاثرات شیئر کیے۔
نتیجہ: قدرت کی شاندار صناعی کا ایک اور جلوہ
اتوار کی رات فلک پر ظاہر ہونے والا یہ خونی چاند نہ صرف قدرت کے حیران کن مظاہر میں سے ایک تھا، بلکہ یہ انسان کے تجسس، سائنسی تجزیے اور کائناتی نظم کی ایک شاندار یاد دہانی بھی تھی۔
ایسے مظاہر انسان کو یہ باور کراتے ہیں کہ کائنات کتنی وسیع، حیرت انگیز اور مربوط ہے — اور ہمیں اس کی تحقیق، مشاہدے اور فہم کے لیے مسلسل سعی کرتے رہنا چاہیے۔
"خونی چاند” آسمان پر ایک شعلہ تھا، زمین پر حیرت اور شوق کا چراغ
کائنات کا حسن، سائنس کی روشنی، اور انسان کی جستجو — سب ایک ساتھ جگمگا اٹھے