
ظہورِ سرکارِ دوعالمؐ ……حیدر جاوید سید
وہی ذات والاصفات جس کے لئے قرآن مجید میں ارشاد ہوا ’’اے ایمان والو تم بھی اللہ اور فرشتوں کی طرح ہمارے نبی معظم کی ذات اقدس پر درود بھیجو‘‘۔
دنیائے اسلام کی طرح آج پاکستان میں بھی سرکار دوعالم ہادی اکبر نور مجسم مولائے ختم الرسل آقائے صادق حضرت محمد مصطفی کریمؐ کا میلاد مسعود مذہبی جوش و خروش اور عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ ربیع الاول کے آغاز کے ساتھ ہی ملک بھر میں محافل میلاد، اجتماعات اور سیمیناروں کے انعقاد کا سلسلہ شروع ہوگیا ان پاکیزہ محافل سے خطاب کرتے ہوئے علمائے کرام مشائخ عظام اور اہل دانش نے سیرت طیبہؐ کے مختلف پہلوئوں کو اجاگر کرتے ہوئے سامعین کو دعوت فکر دی۔
میلادالنبیؐ محض ایک سالانہ رسم کی عقیدت و احترام کے ساتھ ادائیگی کے فرض سے ادا ہوجانے کا دن نہیں بلکہ یہ دن کرہ ارض پر بسنے والے مسلمانوں کویاد دلاتا ہے کہ اس مبارک دن میں وہ ذات اقدسؐ تشریف لائی جسے رب العزت نے معلم جہاں بناکر بھیجا۔
وہی ذات والاصفات جس کے لئے قرآن مجید میں ارشاد ہوا ’’اے ایمان والو تم بھی اللہ اور فرشتوں کی طرح ہمارے نبی معظم کی ذات اقدس پر درود بھیجو‘‘۔
آج کے دن پورے عصری شعور کے ساتھ ہمیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ کیا درود بھیجنے کی قرآنی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے عمل کرنا حق دعوت کو حق کے ساتھ ادا کردینا ہے یا پھر یہ آغاز ہے اس پیغام کو آگے بڑھانے اور تطہیر ذات کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کا۔
حق یہی ہے کہ فقط تلاوت درود سے فرض ادا نہیں ہوجاتا بلکہ ہر کس و ناکس کا فرض ہے کہ وہ سرکار دوعالمؐ کی سیرت طیبہ کو اپنے لئے مشعل راہ بناتے ہوئے مظلومین جہاں کی دست گیری، مساوات پر مبنی نظام کے قیام اور شخصی گروہی یا ریاستی استحصال کے خلاف آواز بلند کرے۔
سرکار احمد مرسلؐ دنیا سے جبرواستحصال، نخوت، تعصبات اور طمع و جمع کی ہوس کے خاتمے کے لئے آئے تھے۔ تجدید عہد کے اس روشن دن کے موقع پر یہ دیکھا جانا ضروری ہوگاکہ کیا ہم نے آپؐ کی دعوت پر حقیقی معنوں میں عمل کرتے ہوئے سماج و نظام کی اصلاح کے عمل میں اپنا حصہ ڈالا یا یہ سوچ کر راستہ بدل لیا کہ تنہا میری آواز کون سنے گا یا ایک شخص کیا تبدیلی لاسکتا ہے؟
مصطفویؐ انقلاب درحقیقت دعوت تطہیر ذات ہے۔ تطہیر شدہ ذات ہی سماج کے لئے ایک ایسا کامل نمونہ بن سکتی ہے جس پر رشک بھی آئے اور پیروی کا شوق بھی اجاگر ہو۔ سیرت طیبہؐ ضرورت سے زیادہ جمع کرنے اور طمع سے بیزاری کی دعوت عمل ہے۔ بدقسمتی سے یہ دعوت صدیوں سے لذت دہن کا سامان تو کرتی ہے اس پر حقیقی معنوں میں عمل کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ تعصبات کے خاتمے اور شرف انسانی کی سربلندی کی دعوت کی جگہ نفسانی خواہشات، ذات برادریوں کے تعصبات اور مسالک کی برتری کے کھوکھلے نظریات اور دھونس نے لے لی ہے۔
جو توانائیاں تعمیر سماج اور عادلانہ نظام کے قیام کے لئے صرف ہونا چاہئیں تھیں وہ شخصی و گروہی بالادستی کے پاکھنڈوں پر صرف ہورہی ہیں۔ انحراف کی اس روش پر گامزن رہنے کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔
اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوگی کہ نبی مکرمؐ نے تجارت کو خیروبھلائی میں شمار کیا۔ ہمارے ہاں یہ زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ آپؐ نے حصول علم کو ہر مردوزن کے لئے واجب قرار دیا۔
ہم نے دینی علوم اور دنیاوی علوم کی باتیں کرکے لوگوں کے لئے دونوں کا حصول مشکل بنادیا حالانکہ تحصیل تعلیم سے ہی ہم علم کے دروازہ تک پہنچ سکتے تھے۔ گزشتہ ایک ہزاری میں مسلم امہ نے علم و تحقیق کے میدان میں رتی برابر بھی کامیابی حاصل نہیں کی البتہ اس عرصہ میں تقسیم در تقسیم کے کاروبار کے بڑھاوے میں ہر شخص نے کسی نہ کسی طرح حصہ ڈالا۔
نبی رحمتؐ جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجے گئے ہم میں سے ہر شخص اپنے بھائی بندوں، پڑوسیوں اور عزیزواقارب کے لئے آزار کا باعث بننے میں فخر محسوس کرتاہے۔
بظاہر کہنے کو ہم فخر سے اس امر کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم نبی رحمتؐ کے امتی ہیں، منتخب دین کے منتخب پیروکاران جنہوں نے کرہ ارض اور انسانیت کی رہنمائی کا فرض ادا کرنا ہے مگر عملی طور پر صورتحال یہ ہے کہ مختلف الخیال لوگ ایک مسجد میں نماز باجماعت ادا نہیں کرسکتے۔
یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ میلاد مسعود نبی رحمتؐ کے موقع پر آج ہمیں احتساب ذات کا آغاز کرتے ہوئے اس بات پر غوروفکر کی ضرورت ہے کہ کیا امتی ہونے کا حق ادا کئے بغیر حق بندگی ادا ہوسکتا ہے؟
نبی رحمتؐ کے ایک امتی کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ اس کے ہاتھ پائوں اور زبان سے اس کا بھائی محفوظ و مامون ہو۔ فقط اس ایک سوال کا جواب تلاش کرنے کی زحمت ہمارے لئے ان راہوں کی نشاندہی کرسکتی ہے جن پر چلنا ہی دعوت مصطفویؐ پر خلوص دل سے عمل ہے۔ ہمیں بطور خاص سوچنا ہوگا کہ سماجی طور پر طاقتور افراد کچلے ہوئے طبقات کو تو چھوڑیں اپنے خانوادے کے کمزور افراد کی اس طور مدد کیوں نہیں کرتے جس پر اسلام زور دیتا ہے۔
ہم اسے بدقسمتی ہی کہیں گے کہ مسلم سماج میں چھوت چھات، بدعتوں، گھٹالوں اور خودپرستی کا دور دورہ ہے۔ دعوت مصطفویؐ ہم سے جن امور کی انجام دہی کی متقاضی ہے ان سے ہم آنکھیں چراتے ہیں۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہی ہے کہ ہم صرف نام کے مسلمان ہیں۔
قرآن مجید ادیان اور اس کے پیروکاروں کے جس احترام کی دعوت دیتا ہے اس کی بنیادی حقیقت یہی ہے کہ اگر تم خود کو سچا سمجھتے ہو تو لازم ہے کسی کو جھوٹا نہ کہو بلکہ ہر دو فہموں پر مکالمے کو رواج دو۔ یقیناً یہی وہ صورت ہے جس سے پورا سچ آشکار ہو۔
افسوس صد افسوس کہ ایک طرف ہم سامراج کی مختلف قسموں اور نظریات سے اعلان برات کرتے نہیں سماتے دوسری طرف مسلم سماج کا ہر گروہ معمولی سی طاقت ملتے ہی خود ایک سامراج کا روپ دھارنے اور اسی کی طرح برتائو کرنے میں دوسرے سے سبقت لے جانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔
مساوات، عدل، علم، ایثار، محبت، یہ سب اب کتابی باتیں ہوگئی ہیں، عمل کی دنیا میں ان کا دور دور تک نشان نہیں۔ میرٹ پر کہیں عمل نہیں ہوتا۔ سماجی معاملات میں فرد کے کردار، فرد کے ریاست اور ریاست کے فرد پر حقوق کی روایات پڑھانے سمجھانے کو پاپائیت کے لئے خطرہ سمجھ کر ان سے منہ موڑ لیا گیا۔
اسی طرح اگر پاکستانی مسلم معاشرے کو فقط ایک حدیث مبارکہ ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘ کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ آشکار ہوجائے گا کہ ہم نے نصف ایمان سے محروم ہونے میں حصہ ڈالنے میں رتی برابر شرمندگی محسوس نہیں کی۔
یہی صورت انفرادی زندگی اور دیگر سماجی امور کے حوالے سے ہے۔
آج میلاد مسعود نبی رحمتؐ مناتے ہوئے ہمیں فرداً فرداً ہی نہیں گروہی طور پر بھی ٹھنڈے دل سے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ کیا ایک مثالی معاشرے کے قیام، عادلانہ نظام اور مساوات کے لئے ہم نے اپنے حصے کا کردار ادا کیا یا ہمارا کردار حقیقت میں انحراف ہی انحراف سے عبارت ہے۔
زیردستوں کو بالادستوں کے استحصال سے نجات دلانے اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے ساتھ ساتھ تعصبات کا خاتمہ، ان سارے امور میں ہمارا انفرادی کردار کیا رہا؟ یہ آج کے دن کی مناسبت سے اہم ترین سوال ہے اس سوال کو نظرانداز کرکے آگے بڑھنے کی بجائے نہ صرف جواب تلاش کرنا لازم ہے بلکہ یہ دیکھنا بھی کہ حق محبت ادا ہوا یا نہیں۔ امید واثق ہے آج عیدمیلادالنبیؐ مناتے ہوئے ہم سبھی احتساب ذات کے ذریعے تطہیر ذات کے فرض کو ادا کریں گے تاکہ حق اسی طور ادا ہوپائے جس طور ادا ہونا چاہیے۔