پاکستاناہم خبریں

اسرائیلی جارحیت پر وزیرِاعظم شہباز شریف کی قطر سے یکجہتی، دوحہ پر حملے کو ’خطرناک اشتعال انگیزی‘ قرار دے دیا

"اسرائیلی جارحیت کا یہ اقدام اسرائیلی قیادت کی انتہا پسند ذہنیت کا عکاس ہے، اور یہ ایک ایسا قدم ہے جو پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر سکتا ہے۔"

اسلام آباد / دوحہ:
پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف نے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی سے ٹیلیفون پر رابطہ کر کے اسرائیل کی جانب سے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں رہائشی علاقوں پر کی گئی فضائی بمباری کی شدید مذمت کی ہے۔ وزیرِاعظم نے اس اقدام کو نہ صرف قطر کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی بلکہ علاقائی امن و سلامتی کے لیے خطرناک اشتعال انگیزی قرار دیا ہے۔

وزیرِاعظم آفس سے جاری کردہ بیان کے مطابق، شہباز شریف نے اسرائیلی حملے کو "انتہا پسندی پر مبنی سوچ” کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی حکومت اپنے ناپاک عزائم کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا:

"اسرائیلی جارحیت کا یہ اقدام اسرائیلی قیادت کی انتہا پسند ذہنیت کا عکاس ہے، اور یہ ایک ایسا قدم ہے جو پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر سکتا ہے۔”


پاکستان کی قطر سے مکمل یکجہتی

وزیرِاعظم نے کہا کہ اس نازک اور حساس وقت میں پاکستان، قطر کے ساتھ ہر ممکن یکجہتی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ایک سوشل میڈیا پیغام میں شہباز شریف نے لکھا:

"عوام اور حکومت کی جانب سے، اور اپنی ذاتی حیثیت میں، میں دوحہ میں اسرائیلی افواج کی جانب سے رہائشی علاقے پر غیر قانونی اور سنگین بمباری کی شدید مذمت کرتا ہوں۔”

انہوں نے مزید کہا:

"اس حملے سے بے گناہ شہریوں کی جانیں خطرے میں ڈال دی گئیں۔ اس مشکل وقت میں ہماری گہری ہمدردیاں اور یکجہتی امیر قطر، قطری شاہی خاندان اور قطر کے عوام کے ساتھ ہیں۔”


پاکستانی دفتر خارجہ کا سخت ردِعمل

دوسری جانب پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے بھی ایک باضابطہ بیان میں اسرائیل کے اس حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ:

"یہ انتہائی اشتعال انگیز اور لاپرواہی پر مبنی کارروائی قطر کی خودمختاری کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الریاستی تعلقات کو کنٹرول کرنے والے قائم شدہ اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔”

بیان میں مزید کہا گیا:

"اسرائیل کی یہ کارروائی بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے ایک مستقل خطرہ ہے اور اس کی طویل المدت پالیسی کا تسلسل ہے جس کا مقصد خطے کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ عالمی برادری کو ایسے استثنیٰ اور جارحیت کو کسی صورت برداشت نہیں کرنا چاہیے۔”


اسرائیلی دعویٰ اور قطری ردِعمل

اسرائیلی فوج نے تصدیق کی ہے کہ منگل کے روز قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک فضائی حملے کے دوران ان کا ہدف حماس کے رہنما تھے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق، اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ یہ حملے حماس کی سیاسی قیادت کی موجودگی کے پیش نظر کیے گئے۔
تاہم، قطری حکام نے ان دعووں کو مسترد کرتے ہوئے اس حملے کو "دوحہ کی خودمختاری پر حملہ” قرار دیا ہے۔

قطر کی وزارتِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ:

"دوحہ میں حماس کے سیاسی بیورو سے وابستہ رہنماؤں کی رہائش گاہوں کو نشانہ بنانا ناقابل قبول ہے۔ یہ اقدام نہ صرف قطر کی سلامتی پر حملہ ہے بلکہ خطے میں جاری سفارتی اور انسانی کوششوں کو بھی نقصان پہنچانے کی سازش ہے۔”

قطر، جو غزہ میں جنگ بندی اور انسانی امداد کے لیے ایک مؤثر ثالثی کردار ادا کرتا رہا ہے، نے اسرائیلی حملوں کو امن کوششوں پر حملہ قرار دیا ہے۔


علاقائی سلامتی پر منڈلاتا خطرہ

وزیرِاعظم شہباز شریف اور امیر قطر نے ٹیلیفونک گفتگو میں اس بات پر اتفاق کیا کہ علاقائی استحکام اور سلامتی کے تحفظ کے لیے قریبی رابطے جاری رکھے جائیں گے۔ دونوں رہنماؤں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی کو ختم کرنے اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے عالمی سطح پر کوششیں تیز کی جائیں گی۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ:

"پاکستان نہ صرف قطر کی خودمختاری کے ساتھ کھڑا ہے بلکہ فلسطینی عوام کے ساتھ بھی ہر ممکن یکجہتی کا اظہار کرتا ہے، جو دہائیوں سے اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بن رہے ہیں۔”


عالمی برادری کا امتحان

پاکستانی قیادت کی جانب سے دیے گئے بیانات میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ عالمی برادری کو اب اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں پر سنجیدہ نوٹس لینا ہو گا۔ وزارتِ خارجہ نے کہا:

"اب وقت آ گیا ہے کہ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتیں اسرائیلی اقدامات کے خلاف متفقہ اور سخت مؤقف اختیار کریں، ورنہ عالمی امن ایک بڑے خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے۔”


نتیجہ: یکجہتی کا مظاہرہ اور سفارتی دباؤ کی ضرورت

اسرائیل کی جانب سے قطر کے دارالحکومت میں کی گئی فضائی بمباری نے مشرقِ وسطیٰ میں جاری کشیدگی کو ایک نیا رخ دے دیا ہے۔ پاکستان کی جانب سے قطر کے ساتھ یکجہتی اور اسرائیل کی کھلی مذمت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ علاقائی طاقتیں اب جارحیت کے خلاف متحدہ سفارتی محاذ بنا رہی ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر عالمی برادری نے اب بھی اس جارحانہ طرز عمل کو روکنے کے لیے اقدامات نہ کیے تو مشرق وسطیٰ ایک بڑے تصادم کی جانب بڑھ سکتا ہے، جس کے اثرات نہ صرف خطے بلکہ عالمی معیشت و امن پر بھی پڑیں گے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button