مشرق وسطیٰاہم خبریں

قطر کے دارالحکومت دوحہ پر اسرائیلی فضائی حملہ: حماس کی جلا وطن قیادت کو نشانہ بنانے کا دعویٰ، علاقائی کشیدگی میں اضافہ

"دوحہ میں موجود حماس کی اعلیٰ قیادت گذشتہ کئی برسوں سے اسرائیل کے خلاف دہشت گردی کے آپریشنز کی نگرانی کر رہی تھی اور 7 اکتوبر 2023 کے حملوں میں بھی ملوث تھی۔"

دوحہ / یروشلم : 
اسرائیلی فضائیہ نے منگل کے روز قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک رہائشی علاقے پر فضائی حملہ کیا، جس کے بارے میں اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ حملہ فلسطینی تنظیم حماس کے سیاسی بیورو سے وابستہ اعلیٰ رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا۔ یہ حملہ نہ صرف قطر کی خودمختاری پر ایک براہ راست حملہ تصور کیا جا رہا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں پورے خطے میں کشیدگی کے بڑھنے کا خدشہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔


"سمٹ آف فائر” – اسرائیلی فوج کا کوڈ نام

اسرائیلی دفاعی ادارے کے مطابق، اس کارروائی کا نام "Summit of Fire” رکھا گیا، اور اس کا مقصد حماس کی بیرون ملک قیادت کو ہدف بنانا تھا۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے:

"دوحہ میں موجود حماس کی اعلیٰ قیادت گذشتہ کئی برسوں سے اسرائیل کے خلاف دہشت گردی کے آپریشنز کی نگرانی کر رہی تھی اور 7 اکتوبر 2023 کے حملوں میں بھی ملوث تھی۔”

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق، دوحہ میں تعینات ان کا ویڈیو جرنلسٹ حملے کے فوراً بعد متاثرہ علاقے میں پہنچا، جہاں ایک نسبتاً کم بلند عمارت کے پیچھے سے دھوئیں کے بادل اٹھتے ہوئے دیکھے گئے۔


قطر کا سخت ردعمل: "بزدلانہ اور ناقابل قبول کارروائی”

قطر نے اس حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے نہ صرف بین الاقوامی قوانین بلکہ علاقائی سالمیت کے اصولوں کی بھی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

قطری وزارتِ خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے ’ایکس‘ (سابق ٹوئٹر) پر بیان میں کہا:

"ریاست قطر، اسرائیلی افواج کی جانب سے دوحہ میں واقع رہائشی عمارتوں میں موجود حماس کے سیاسی بیورو کو نشانہ بنانے کی شدید مذمت کرتی ہے۔ یہ حملہ قطر کی خودمختاری، امن کوششوں اور بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ:

"یہ ایک غیر ذمہ دارانہ اور خطرناک اشتعال انگیزی ہے جو مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو مزید ہوا دے سکتی ہے۔”


پاکستان سمیت متعدد ممالک کی جانب سے مذمت

پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے بھی امیرِ قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا اور اسرائیلی جارحیت کی سخت مذمت کی۔
انہوں نے اس حملے کو قطر کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے خلاف سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔

وزیرِاعظم شہباز شریف نے کہا:

"اسرائیلی جارحیت، اس کی انتہا پسندانہ سوچ اور ناقابل قبول عزائم کا مظہر ہے۔ پاکستان ریاست قطر کے ساتھ کھڑا ہے اور فلسطینی عوام کی حمایت جاری رکھے گا۔”

پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے بھی اس حملے کو "بین الاقوامی امن کے لیے خطرہ” قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے فوری ایکشن کا مطالبہ کیا۔


حماس کی قیادت پر براہِ راست حملہ: مذاکرات کا مستقبل مخدوش

قطر، مصر اور امریکہ کے اشتراک سے غزہ میں جنگ بندی کے لیے جاری بالواسطہ مذاکرات اب ایک بار پھر غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہو گئے ہیں۔
حماس کے ایک سینئر اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا:

"دوحہ میں موجود وہ رہنما جو غزہ میں جنگ بندی کے لیے بات چیت کر رہے تھے، اس حملے میں نشانہ بنائے گئے۔ یہ مذاکرات کی فضا کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے۔”

اگرچہ ابھی تک اس حملے میں جانی نقصان کی تصدیق نہیں ہو سکی، تاہم حماس کی اعلیٰ قیادت پر حملے نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔


پسِ منظر: اسرائیلی جنرل کا دھمکی آمیز بیان

اسرائیلی دفاعی افواج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ایال ضمیر نے 31 اگست 2025 کو ایک بیان میں کہا تھا:

"حماس کی زیادہ تر قیادت بیرونِ ملک مقیم ہے، اور ہم ان تک بھی پہنچیں گے۔”

اس بیان کو اب عملی جامہ پہناتے ہوئے اسرائیل نے پہلی بار قطر جیسے خلیجی اتحادی ملک پر حملہ کر دیا، جس نے اب تک غزہ میں ثالثی کا کلیدی کردار ادا کیا ہے۔


ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان: "آخری انتباہ”

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کو ایک بیان میں حماس کو ’آخری انتباہ‘ دیتے ہوئے کہا تھا:

"حماس کو فوری طور پر یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ قبول کرنا ہوگا۔”

یہ بیان اسرائیلی حملے سے محض دو دن قبل سامنے آیا، جس سے بعض حلقے یہ تاثر لے رہے ہیں کہ اسرائیلی حملہ امریکی آشیر باد سے کیا گیا ہو سکتا ہے، حالانکہ امریکہ نے تاحال اس حملے پر کوئی باضابطہ ردعمل جاری نہیں کیا۔


نتائج اور خطرات: علاقائی کشیدگی کا نیا باب

دوحہ پر اسرائیلی حملہ صرف ایک فضائی کارروائی نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ کی سفارتی اور تزویراتی سمت کو تبدیل کرنے والا واقعہ بن سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، اس حملے سے نہ صرف قطر کی سفارتی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے بلکہ حماس کے ساتھ جاری مذاکراتی عمل بھی تعطل کا شکار ہو سکتا ہے۔

کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ:

"اگر اسرائیل خطے کے دیگر ممالک میں موجود حماس کی قیادت پر اسی طرح کے حملے جاری رکھتا ہے، تو یہ نہ صرف خلیجی ممالک کی سلامتی کو خطرے میں ڈالے گا بلکہ مغربی مفادات کے لیے بھی ناپسندیدہ نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔”


نتیجہ: عالمی برادری کی خاموشی کا امتحان

اب سوال یہ ہے کہ عالمی برادری بالخصوص اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی یونین اور عرب لیگ، قطر جیسے سفارتی ثالث پر ہونے والے حملے پر کس طرح ردِعمل دیتی ہے۔
کیا وہ اسرائیل کو لگام ڈالنے کے لیے متحد ہو سکیں گے؟ یا مشرق وسطیٰ ایک نئے بحران کی دہلیز پر کھڑا ہے؟

فی الحال، دنیا کی نظریں دوحہ، یروشلم، اور غزہ کی جانب لگی ہوئی ہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button